• news
  • image

طویل المدت ٹیکنو کریٹ بندوبست 


رواں برس کے اپریل میں وزارت عظمیٰ کا منصب کھودینے کے بعد عمران خان صاحب نے انتہائی جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے فوری انتخاب کے حصول کی ٹھان لی۔25مئی کے روز مگر اسلام آباد پہنچ کر بھی وہ ایسا ماحول بنا نہیں پائے جو ان کو اپنے طے شدہ ہدف کے قریب لے جاتا۔ بعدازاں لاہور سے راولپنڈی تک لانگ مارچ کا اہتمام ہوا۔ اس کا شیڈول نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر اثرانداز ہونے کی خواہش کا واضح اظہار بھی تھا۔لانگ مارچ کے دوران ہی مگر ان پر قاتلانہ حملہ ہوگیا۔ربّ کا صد شکر کہ وہ محفوظ رہے۔ ان پر ہوئے حملے نے مگر لانگ مارچ کی شدت کو کمزور بنادیا۔یہ کمزوری وزیر اعظم شہباز شریف کو اپنی ترجیح کے مطابق ’’تعیناتی‘‘ کا عمل مکمل کرنے میں مددگار ثابت ہوئی۔
فوری انتخاب کے مطالبے کو اس کے بعد بھلادینا بھی مگر عمران خان صاحب کے لئے سیاسی اعتبار سے ممکن نہیں تھا۔مذکورہ مطالبے کو زندہ رکھنے کے لئے انہوں نے پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کی چال چلی۔ چودھری پرویز الٰہی نے مگر یہ چال کارگر ہونے نہیں دی۔بدھ کے دن سے اب عمران خان صاحب سے منسوب ایک فقرہ روایتی اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونا شروع ہوگیا ہے۔اس کی بدولت تحریک انصاف کے قا ئد فوری انتخاب کے ا نعقاد کی بابت پرامید سنائی نہیں دے رہے۔ طویل مدت کے لئے تشکیل دی ’’ٹیکنوکریٹ حکومت‘‘ کے امکان کا ذکر بھی کردیا۔
پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے مسلسل ابھارے ہیجان سے ٹی وی سکرینوں پر چھائے ’’ذہن ساز‘‘ بھی دریں اثناء تھک چکے تھے۔ اپنی ہٹی چلانے کے لئے کسی نئے موضوع کی تلاش میں مرے جارہے تھے۔ ان کی مدد کو ایف بی آر کے چند مہینوں کے لئے عمران حکومت کے دوران لگائے چیئرمین شبرزیدی میدان میں اترے اور طویل المدت ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کی نوید سنادی۔ عمران خان صاحب سے منسوب کلمات کو شبر زیدی کے خیالات سے ملاکر ’’ذہن سازوں‘‘ کو لہٰذا ایک ’’نئی کہانی‘‘ گھڑنے کی سہولت میسر ہوگئی۔ حالانکہ اس کہانی میں کچھ بھی ’’نیا‘‘نہیں ہے۔
موجودہ حکومت کے کئی تگڑے وزیروں کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ بجٹ کی تیاری کے دوران رواں برس کے مئی میں مبینہ طورپر انہیں سابقہ عسکری قیادت سے یہ پیغام ملا کہ نیا بجٹ منظور کرواتے ہی شہباز شریف صاحب فوری انتخاب کو یقینی بنانے کے لئے قومی اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کردیں۔مبینہ پیغام ملتے ہی وزیر اعظم اور ان کے وفادار وزراء کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ آئی ایم ایف کی وجہ سے دیوار کے ساتھ لگی حکومت عوام کے لئے ’’ناقابل قبول‘‘ بجٹ پیش کرنے کو مجبورتھی۔ اس کے لاگو ہونے کے چند ہی ماہ بعد اگر وہ نئے انتخاب کی طرف بڑھتی تو اس میں شامل جماعتوں کو شاید قومی اسمبلی کے کئی حلقوں میں ان کی ٹکٹ پر انتخابی میدان میں اترنے کے امیدوار بھی نہ ملتے۔ گھبراہٹ میں فیصلہ ہوا کہ نواز شریف صاحب کے ساتھ مشاورت سے ’’اب کیا کریں‘‘ والے سوال کا جواب ڈھونڈا جائے۔باوثوق ذرائع سے ملاقاتوں کے بعد میں اعتماد سے لکھ سکتا ہوں کہ لندن میں 22مئی کے روز بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ شہباز حکومت نیا بجٹ تیار کرنے کے بجائے قومی اسمبلی کی تحلیل کا بندوبست کرے۔ نئے بجٹ کی تیاری کا فریضہ یوں ’’عبوری حکومت‘‘ کے سپرد کردیا جائے۔ عمران خان صاحب کی جانب سے مگر 25مئی کے دن اسلام آباد پر دھاوابولنے کے اعلان نے جوابی ضد اختیار کرنے کو اکسادیا۔شہباز حکومت ’’آئینی مدت‘‘ مکمل کرنے پر ڈٹ گئی۔
طویل المدت ’’عبوری حکومت‘‘ کی بابت سازشی سرگوشیوں کے ذریعے چند کہانیاں نومبر کے دوسرے ہفتے میں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔’’تعیناتی‘‘ کے بہت قریب دنوں میں وزیر اعظم شہباز شریف صاحب کی مصر کے شرم الشیخ سے ’’اچانک‘‘ لندن روانگی نے ان کہانیوں کو قابل اعتبار بنایا۔شہباز شریف مگر بالآخر اپنی ترجیح کے عین مطابق تعیناتی میں کامیاب ہوگئے۔ طویل المدتی ’’ٹیکنوکریٹ‘‘ بندوبست کے امکانات اس کے باوجود اپنی جگہ موجود رہے۔
گھبراہٹ کے جس عالم میں وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں 31دسمبر کے دن طے ہوئے بلدیاتی انتخاب کو ٹالا ہے وہ عمران خان صاحب سے منسوب بیان اور شبرزیدی کی ’’دور رس فراست‘‘ سے کہیں زیادہ عوام کو یہ سوچنے کو مائل کررہا ہے کہ موجودہ حکومت کے کرتا دھرتا کسی بھی انتخاب سے فرار کے راستے ڈھونڈنے کو بے قرار ہیں۔ اسلام آباد کے مضافات میں ڈیرے اور دھڑوں والے امیدوار برملا یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’شیر(انتخابات) سے بھاگ گیا ہے۔‘‘جوتاثر پھیلا ہے مسلم لیگ (نون) عام انتخابات کے دوران بھی اس کے منفی اثرات سے اپنی جند چھڑانہیں پائے گی۔
میرے جھکی ذہن کو تاہم ایک قطعاََ مختلف سوال گزشتہ دو دنوں سے الجھائے ہوئے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے عوام کی خاطر خواہ تعداد نئے انتخاب کا انعقاد یقینی بنانے کے لئے ٹھوس سیاسی عمل کے ذریعے حکومت اور ریاستی اداروں پر دبائو بڑھانے کو آمادہ ہے بھی یا نہیں۔پنجابی محاورے میں ’’دیگ کا دانہ‘‘ اجتماعی کیفیت کی تشخیص کے لئے کافی تصور ہوتا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوںمیں فی الوقت عمران خان صاحب کی تحریک انصاف ہی فوری انتخاب کو بے چین نظر آرہی ہے۔2018ء کے انتخاب کے دوران اس جماعت کے نامزد کردہ امیداروں نے اسلام آباد کے لئے مختص قومی اسمبلی کی تینوں نشستوں کو بآسانی جیت لیا تھا۔اس شہر کے بلدیاتی انتخاب کے لئے جو انتخابی مہم چل رہی تھی واضح انداز میں عندیہ دے رہی تھی کہ تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدوار 101میں سے کم از کم 45سے 50نشستوں پر بآسانی جیت جائیں گے۔ ’’آزاد‘‘ ا میدواروں کی بھاری بھر کم تعداد بھی میدان میں تھی۔ان کی کماحقہ تعداد ابتداََ تحریک انصاف کے ٹکٹ کی امیدوار تھی۔انہیں ٹکٹ نہ ملا تو ’’آزاد‘‘ ہوگئے۔جو ا نتخابی شیڈول طے ہوا تھا اس کے مطابق بلدیاتی انتخاب میں ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ بتائی گئی تھی۔اس بھاری بھر کم تعداد کو مگر 31دسمبر کے دن ووٹ ڈالنے کا حق میسر ہی نہیں ہوا۔اس ’’حق تلفی‘‘ کے خلاف بھرپور احتجاج کے امکانات روشن تھے۔اس کی جانب مگر توجہ ہی نہیں دی گئی۔صرف جماعت اسلامی نے احتجاج کی کوشش کی۔اس کے ’’احتجاجی اجتماع‘‘ میں لیکن دوسو سے زیادہ افراد شریک نہیں تھے۔ ’’دیگ کے دانے‘‘ والے محاورے میں چھپی بصیرت پر انحصار کروں تو ہمارے عوام خود کوآج بھی ’’رعایا‘‘ ہی تصور کرتے ہیں جو ’’سلطانی مزاج‘‘کی مزاحمت کو آمادہ نہیں۔ایسے عالم میں طویل المدت ٹیکنوکریٹ بندوبست کو رد کرنے کی ہمت مجھ میں تو موجود نہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن