پولیس کی ڈگر کب بدلے گی؟
کیسا عجیب وقت آ گیا ہے کہ ہر طرف جھوٹ فریب کرپشن اور منافقت ہی منافقت ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بس انسان تو صرف میں ہی ہوں اور ایسے حالات میں یہ حضرت انسان پیسہ اکٹھا کرنے میں تمام جائز ناجائز سب حدیں کراس کر جاتا ہے جی ہاں یہاں پر اگر یہ کہا جائے کہ انسان بدلتا نہیں بلکہ بدلتے حالات کے ساتھ اس کا اصلی چہرہ سامنے آجاتا ہے زمانہ تب بدلتا ہے جب انسان بدلتا ہے، اور انسان تب بدلتا ہے جب اسکا کردار بدلتا ہے۔
کردار سوچ بدلنے کا نتیجہ ہوتا ہے اور سوچ کی تبدیلی زیادہ تر حالات سے تعلق رکھتی ہے۔ جب کم ظرف لوگوں کا پیٹ بھرتا ہے تو وہ بدل جاتے ہیں آسمان سر پر اٹھاتے ہیں۔ لوگ بھی خوش آمد کر کرکے ان کو سر پر بٹھاتے ہیں۔ لوگوں کی رائے بدل جاتی ہے یہاں پر، کوئی اس کو ذہین سمجھنے لگتا ہے تو کوئی خوش نصیب کوئی قسمت والا تو کوئی محنتی کا نام سونپ دیتے ہیں حیثیت سے زیادہ عزت ملنے پر وہ اکثر تمیز نام کی چیز بھول جاتا ہے اس کی سوچ بدل جاتی ہے اور احساس برتری کا شکار ہو جاتا ہے- پیسے سے ہم اپنا گھر بار، رہن سہن، کھانا پینا یہاں تک کہ پوری زندگی بدل تو سکتے ہیں لیکن ہماری اوقات وہی رہتی ہے جو اصل میں ہوتی ہے ہماری اوقات پہ پیسے کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہاں اگر انسان اعلیٰ ظرف ہے تو اچھا بدلاو¿ ہوتا ہے وہ اپنی اوقات کبھی نہیں بھولتا اسی لیے کہتے ہیں ”پیسہ، حیثیت بدل سکتا ہے اوقات نہیں“ آپ یہاں پر کسی بھی شعبے کو دیکھ لیں جس کے ساتھ زندگی میں آپ کا واسطہ کسی نہ کسی طریقے سے پڑھتا رہتا ہوگا اس وقت تقریبا ہر شعبہ جات میں رشوت خوری کرپشن ہر طرح کی لوٹ مار کا بازار ہر طرف عروج پر ہے. یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں مختلف طبقوں اور تمام محکمہ جات کے حوالے سے بہت سارے لطیفے مشہور ہیں. جس میں پولیس کا محکمہ سرفہرست ہے۔ نہ صرف بہت سارے لطیفے بلکہ ٹی وی چینلز اور اسٹیج ڈراموں میں دکھائے جانے والے پولیس کے اکثر کردار بھی ایسے ہوتے ہیں.جن سے اس محکمے کا کھل کر مذاق اڑایا جاتاہے.مگر اسکے باوجود یہ پولیس والے اپنا بگڑا ہوا قبلہ درست نہیں کرتے آج سے چالیس سال قبل پی ٹی وی پر ایک ڈرامہ سیریل جس کا نام اندھیرا اجالا تھا دکھایا جاتا تھا جس میں اس معاشرے کی اور پولیس کے ناقص روئے جس میں یہ پولیس اہلکار جو جو کچھ کرتے ہیں اس کی بھرپور عکاسی کی جاتی تھی جس میں ہونے والے واقعات اور پولیس اہلکاروں کی زیادتیاں اور ظلم و ستم نمایاں دکھایا جاتا تھا جو بالکل حقیقت پر مبنی ہوتا تھا اس ڈرامہ میں اداکار عرفان کھوسٹ بطور ڈائریکٹ حوالدار کا کردار ادا کر رہے تھے یہ وہ ڈرامہ تھا جسے لوگ اسکی اگلے ہفتے آنیوالی قسط کا شدت سے انتظار کرتے تھے اس ڈرامہ کے مرکزی کردار میں بطور اداکار جعفرخان انسپکٹر اور قوی خان ڈی ایس پی ہوا کرتے تھے ۔
یہ ڈرامہ سیریل اپنے دور کا مقبول ترین ڈرامہ تھا آج کے اس بدترین دور میں آفتاب اقبال کے پروگرام خبرناک میں ایک نئے ٹرینڈ کے ساتھ تھانہ کلچر کا جو منظر دکھایا جاتا ہے وہ بھی بالکل حقیقت اور پولیس کلچر کی نمایاں ایک تصویر دکھائی جاتی ہے جس میں اداکار ناصر چنیوٹی حنیف ٹیرا کا کردار ادا کر رہا ہے اس حنیف ٹیرا کو بس حنیفہ تیرا کہنے کی دیر ہوتی ہے کہ یہ شخص جس کے ہاتھ میں ایک بہت بڑی موٹی سی ڈانگ ہوتی ہے یہ اسی ڈانگ اور اپنے ہاتھوں کے ذریعے اپنے ایس ایچ او اور تھانے میں آنےوالے دیگر سائلان کے اوپر حملہ آور ہو جاتا ہے جس سے پورے تھانے کا منظر درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے اس طرح پولیس کا اس کلپ میں خوب مذاق اڑایا جاتا ہے مگر ان کو پھر بھی اس کے باوجود شرم نہیں آتی پولیس کے خلاف اس طرح کے چلنے والے سیریل سے اندازہ ہوتا ہے کہ پولیس کی ڈگر اس وقت بھی یہی تھی اور اب تو ان کی زیادتیاں پہلے سے بھی بڑھ چکی ہیں نہایت افسوس کے ساتھ پولیس کی اس ڈگر میں کمی آنے کی بجائے مزید اضافہ ہوگیا ہے اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ پولیس والے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے شہریوں کے ساتھ اس قدر بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور رشوت خوری کے علاوہ کسی کے گھر جاکر بغیر دروازہ کھٹکھٹائے اندر داخل ہونا جیسے واقعات ان کا روز کا معمول ہے اسکے علاوہ ان کی بدمعاشیاں کچھ ایسی اور بھی ہیں کہ یہ جس دکان سے سودا سلف لیتے ہیں وہاں سے بغیر پیسے دیے چلے جاتے ہیں مثلا پان سگریٹ والا نان والا فروٹ والا سب کو وردی کی دھونس دیکر ضرورت کی اشیاءلی اور چلتے بنے میں تمام پولیس والوں کی بات نہیں کرتا مگر اکثریت کچھ ایسی ہی ہے اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جتنے پیسوں کا سودا اس پولیس والے نے لیا اس سے غریب کو سارے دن میں اتنی کمائی نہیں ہوتی ہے یقین جانے حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں اور حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ شریف آدمی تھانے میں جانا بھی گوارا نہیں کرتا۔