• news
  • image

کیا طے شدہ حدود سے تجاوز غیر آئینی نہیں 


مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے بیشتر نے یہ لطیفہ سن رکھا ہوگا۔ جی ہاں وہی جس میں ایک بادشاہ اپنے تئیں یہ جاننا چاہتا ہے کہ اس کی رعایا میں ریاستی من مانیاں برداشت کرنے کی حد کیا ہے۔اس کی حد ماپنے کے لئے شہر کے ایک مصروف ترین پل پر ٹال ٹیکس کی شرح ناقابل برداشت حد تک بڑھادی جاتی ہے۔رعایا اس کی بابت احتجاج کی جرا¿ت ہی نہیں دکھاتی۔ اسے مزید مشتعل کرنے کو یہ پل استعمال کرنے والوں کے ساتھ ریاستی اہلکاروں کو ایسا سلوک کرنے کا حکم صادر ہوتا ہے جس کا ذکر گھر میں رکھے اخبار میں ہونہیں سکتا۔ رعایا اس سے بھی مشتعل نہیں ہوتی۔ دربار میں ایک وفد بھیج کر بلکہ فریاد کی جاتی ہے کہ پل پار کرنے والوں کے ساتھ غیر اخلاقی زیادتی پر مامور اہلکاروں کی ”نفری“ بڑھادی جائے تانکہ وہاں ٹریفک سرعت سے رواں دواں رہے۔ گزشتہ چند دنوں سے میںاس لطیفہ کو چند ٹھوس واقعات کی وجہ سے اپنے عوام کی بے بسی ولاچاری کا بصیرت آموز اظہار تصور کررہا ہوں۔
کامل چھ برس تک ہمیں ”سیدھی راہ“ پر چلانے کو بے تاب رہنے کے بعد گزشتہ ماہ ریٹائر ہوئے قمر جاوید باجو ہ صاحب نے ”گمنام“ ہونے کا عہد باندھا تھا۔دوہفتوں کی ”گمنامی“ بھی لیکن برداشت نہیں کر پائے۔اپنے ”قریب ترین دوستوں“کی معاونت سے ہمارے ایک متحرک اور محنتی اینکر منصور علی خان کو اپنی نیک نیتی ثابت کرنے کے لئے چند کہانیاں فراہم کیں۔ موصوف کے قابل اعتماد دوستوں نے بعدازاں کچھ داستانیں ہمارے ایک اور سینئر ساتھی انصار عباسی تک بھی پہنچادیں۔ ان دونوں نے اپنے تک آئی یہ کہانیاں من وعن بیان کردیں۔باجوہ صاحب اس کے باوجود مطمئن نہ ہوئے۔بالآخر ہمارے ایک اور معتبر ساتھی جاوید چودھری سے چھ گھنٹوں تک پھیلی ملاقات کا وقت نکالا۔ مذکورہ ملاقات کا کلیدی پیغام وہ کاوشیں تھیں جن کے ذریعے عمران خان صاحب کو مبینہ طورپر ریاستی اثر کے بھرپور استعمال کی بدولت پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے ذریعے ”صادق وامین“ کی سند دلوائی گئی تھی۔ یہ سند یاد رہے کہ اسی ادارے سے میسر ہوئی جس نے ایک نہیں دو وزرائے اعظم کو گھریلو ملازموں کی طرح فارغ کردیا تھا۔ 
یوسف رضا گیلانی پاکستان کے منتخب صدر کو بدعنوان ثابت کرنے کے لئے ایک اور ملک کو چٹھی لکھنے کو آمادہ نہیں تھے۔ان کی جانب سے برتی احتیاط ”توہین عدالت“ قرار پائی۔ نواز شریف کے ”اثاثوں“ کی کئی ماہ تک چھان بین ہوئی۔ اس کے اختتام پر اپنے فرزند کی چلائی کمپنی سے تنخواہ وصول نہ کرنے کے سبب”جھوٹا اور خائن“ قرار پاکر تاحیات کسی بھی عوامی عہدے کے لئے نااہل ٹھہرادئیے گئے۔
گیلانی اور نواز شریف کے برعکس عمران خان صاحب کے اسلام آباد کے نواحی بنی گالہ میں تعمیر ہوئے محل نما مکان کو ”جائز“ ثابت کرنے کے لئے کئی برس قبل بند ہوئے ا یک غیر ملکی بینک کے ریکارڈ سے نکالی دستاویز بھی قابل اعتبار قرار پائیں۔ میرے ساتھی محمد مالک کے ٹی وی شو میں باجوہ صاحب تک رسائی کی شہرت کے حامل ملک محمد احمد خان نے مذکورہ عمل میں ریاست کے طاقت ور ترین عہدے دار کی سرپرستی اور معاونت کا نہایت اعتماد سے ذکر کیا۔ جاوید چودھری سے ہوئی ملاقات میں باجوہ صاحب نے ان کے دعویٰ کو جھٹلانے کا تردد ہی نہیں کیا۔ایک حوالے سے بلکہ ”موراوور“ کرتے ہوئے یہ انکشاف بھی کردیا کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد معاملات کو ”بیلنس“ دکھانے کے لئے عمران خان صاحب کے قریب ترین تصور ہوتے جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی کا بھی بندوبست ہوا تھا۔
باجوہ صاحب کی واضح دکھتی معاونت کی بدولت جو کہانیاں روایتی اور سوشل میڈیا پر ان دنوں چھائی ہوئی ہیں ان میں ”سودے“ کے حوالے سے کچھ نیا نہیں ہے۔مجھ جیسے ”راندئہ دربار“ رپورٹر بھی 2016ءکے وسط سے اعلیٰ ترین عدالت کے ہاتھوں ”صادق وامین“ قرار پانے کے عمل پر واجب سوالات اٹھارہے تھے۔ محض صحافیانہ تقاضوں کی وجہ سے یہ سوالات اٹھانا ”پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ“ میں ”دشمن کی سہولت کاری“ ٹھہرادیا گیا۔ ”لفافہ“ ہونے کی تہمت بھی برداشت کی۔تین سے زائد دہائیوں تک پھیلے صحافتی کیرئیر میں پہلی بار ایک ٹی وی چینل سے ذلت آمیز انداز میں ادارے پر ”مالی بوجھ“ قرار پاکر بالآخر فارغ بھی ہوا۔میرا چہرہ اور آواز دیگر ٹی وی چینلوں کے ناقابل بھی ٹھہرادی گئی۔”گوشے میں قفس“ میں بیٹھا یہ کالم البتہ لکھتا رہا۔باجوہ صاحب سے منسوب ”انکشافات“ مجھ ایسے ”راندئہ دربار“ قلم گھسیٹوں کے دلوں میں فطری طورپرابھرے وسوسوں اور خدشات کی اہم ترین ”ذریعہ“ سے ہوئی تصدیق ہی ہیں۔
ہمارے دلوں میں موجود وسوسوں کی تصدیق کرنے والے یہ ”انکشافات“ تاہم ”چسکہ فروشی“ کے دھندے کو خوب رونق لگارہے ہیں۔اس ”ڈھٹائی“ کی جانب ہماری نگاہ جاہی نہیں رہی جس کے ذریعے کامل چھ برسوں تک ہمیں ”سیدھی راہ“ پر چلانے کو بے قررار رہے صاحب اختیار اب سینہ پھلاکر اپنی سرپرستی کی حیران کن اثرپذیری کا اعتراف کررہے ہیں۔ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی سیاستدان کو ”صادق وامین“کی سند فراہم کرنے کے عمل میں شریک چند افراد ان دنوں بھی ہمارے ریاستی اداروں میں اہم ترین مناصب پر فائز ہیں۔”توہین“ کا احساس انہیں مگر ہونہیں رہا۔”انکشاف“ یہ بھی ہوا ہے کہ ”صادق ا ور امین“ ٹھہرانے اور اس سے محروم رکھنے والے عمل میں کچھ فیصلے ماضی میں ”قابل احترام“ تصور ہوتے ”منصفوں“ نے نہیں لکھے تھے۔ مبینہ طورپر مذکورہ تناظر میں سامنے آئی اسناد کا متن دووکلاءنے تیار کیا تھا۔چسکہ فروشی کی تمنا اب میرے ساتھیوں کو ان وکلاءکے نام منکشف کرنے کو بے چین رکھے گی۔ ٹی وی سکرینوں پر اس کی بدولت ریٹنگ کی رونق لگی رہے گی۔ 
جو ”انکشافات“ بینڈ باجہ بارات کے ساتھ گزشتہ کئی دنوں سے اچھالے جارہے ہیں ان کے شوروغوغا میں ہمیں فرصت ہی نہیں کہ پریشان ہوکر چند بنیادی سوالات ا ٹھائیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ پاکستان ایک ”تحریری آئین“کے تحت چلایا جارہا ہے۔یہ آئین مبینہ طورپر وطن عزیز میں حکمران افراد اور اداروں کے اختیار کو دائروں میں محدود کرتا ہے۔طے شدہ حدود سے تجاوز ”غیرآئینی“ تصور ہونا چاہیے۔ اس جانب مگر ہم توجہ ہی نہیں دیں گے۔ کالم کے آغاز میں یاد دلائے لطیفہ کی رعایا کی طرح بے بس ولاچار محسوس کرتے ہوئے طے شدہ حدود سے تجاوز کرنے والوں کی ”مزید نفری“ کے طلب گار ہی ثابت ہوں گے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن