2022:کھویا بہت کچھ، پایا کچھ نہیں
سال 2022ءکے دوران ملک میں سیاسی عدم استحکام، معاشی بدحالی، مہنگائی، بے روزگاری، غربت، ڈالر کی اونچی اڑان، غیر ملکی قرضوں میں ریکارڈ اضافے، گردشی قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ اور ہمارے سیاستدانوں کے نہ ختم ہونے والے جھگڑوں کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ہماری ناقص منصوبہ بندی اور پالیسیوں کی وجہ سے ہماری مجموعی صنعتی اور زرعی پیداوار میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے بلکہ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے ہمارے موجودہ اور سابق حکمرانوں نے معیشت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانے کی بجائے ایک دوسرے کو نیچے گرانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جبکہ اپنی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر، فرضی اعداد و شمار کے سہارے ”شاندار، مثالی اور اعلیٰ“ ثابت کرنے کی کوششیں کیں۔ اس قوم کا ہر فرد جانتا ہے کہ 2022ءکے دوران اِن حکمرانوں نے انہیں کس طرح مہنگائی اور غربت کی سونامی میں ڈبویا اور سخت ترین شرائط پر قرضے مشن سمجھ کر حاصل کرنے کے لیے قوم کی عزت اور وقار کی بھی پروا نہیں کی۔ 2022ءکا سال اس لحاظ سے بھی بدقسمت رہا کہ ہمارے سیاست دانوں نے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے قومی اداروں اور اعلیٰ عدلیہ کو بڑی بے دردی کے ساتھ نشانہ بنایا۔ ان کی ذات پر حملے، الزامات اور جھوٹے پراپیگنڈے کی انتہا کر دی۔
2022ءمیں جہاں ہر سطح پر نفرت کی سیاست نے عروج پایا وہاں گالم گلوچ، الزامات کی بوچھاڑ، چور، ڈاکو، لٹیرے، کرپٹ ٹولہ، غیر ملک ایجنٹ، یہودی ایجنٹ، انوکھا لاڈلہ، گھڑی چور سمیت نہ جانے کتنے اور القابات و ڈائیلاگ ہماری سیاہ سیاسی ڈکشنری میں شامل ہوئے۔ ملک میں غیر یقینی سیاسی حالات کی وجہ سے افواہوں کا بازار گرم رہا اور ہماری سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل نے اپنے اپنے انداز میں اور اپنی اپنی سیاسی جماعت کے مفاد میں واقعات اور افواہوں کو خوب تڑکا لگا کر پیش کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی لڑائیاں دشمنی میں تبدیل ہو چکی ہیں اور ذاتیات سے آگے بڑھ کر خاندانوں اور گھروں تک پہنچ گئی ہیں۔ حکومت کی طرف سے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات درج کروانے اور تھرڈ ڈگری کے ذریعے تِگنی کا ناچ نچانے کے عمل نے زور پکڑا۔ جمہوریت جمہوریت کا ہر دم ورد کرنے والے سیاستدانوں کے آمرانہ رویوں کی وجہ سے جمہوری کی دیوی مارے غم اور شرم کے زندہ درگور ہو چکی ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق جس کی کرسی اس کا راج کی آڑ میں اپنے مخالفین اور عوام کو رگڑا لگانے کا عمل جاری رہا۔ یقینا اب سیاسی لڑائیاں وزیر اعظم ہاﺅس کی بھینسیں اور گاڑیوں کی نیلامی، کٹے اور مرغیاں پالنے، ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھروں کی تعمیر ، گھڑیوں، ہیرے کے سیٹوں، لندن کے محلات ، ایفی ڈرین، منشیات کی سمگلنگ، مقصود چپڑاسی، منی لانڈرنگ، ناجائز اثاثہ جات سے کہیں آگے نکل کر قید خانوں، برہنہ کر کے تشدد کرنا اور اس کی ویڈیو بنانا، آئے روز آڈیو ویڈیو لیک ہونے تک پہنچ چکی ہیں۔ کسی زمانے میں رشوت خوری، سمگلنگ ، غداری اور وطن دشمنی جیسے گھناﺅنے الزامات اپنے سیاسی مخالفین پر لگائے جاتے تھے لیکن 2022ءمیں ہمارے سیاستدان تمام معاشرتی اور اخلاقی اقدار کو تار تار کر کے، ایک دوسرے کو ننگا کرنے کے چکروں میں ہیں۔ عوام کے مسائل کو حل کرنے اور انہیں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے جھوٹے دعوے کرنے والے سیاستدانوں کو نہ جانے کب ہوش آئے گی یقینا یہ اپنے منفی رویوں کی وجہ سے ہی دنیا بھر میں ہماری جگ ہنسائی کا باعث بن رہے ہیں۔
ہمارے سیاست دان اپنے اقتدار کو بچانے اور دوسرے کے اقتدار کو گرانے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں انہیں اپنی آنکھ کا شہتیر تو کبھی نظر نہیں آتا لیکن دوسروں کی آنکھ کا بال تک بھی صاف نظر آتا ہے۔ 2022ءکے دوران حکومت اور اپوزیشن کی ہر سیاسی لڑائی عدالتوں تک گئی ہے اور پارلیمنٹ میں طے ہونے والے معاملات عدالتوں کے ذریعے حل ہوئے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ 2022ءکے دوران سوشل میڈیا نے ہر مسئلے اور معاملے کو دھوم دھڑکے کے ساتھ نمایاں کیا۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ 2022ءکے دوران حکومت اور اپوزیشن کی نہ ختم ہونے والی جنگ کی وجہ سے پاکستانی عوام خاص کر سیلاب متاثرین بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ سیاسی مفادات کی اس جنگ نے عوام کے مسائل میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔
2022ءکے دوران جہاں ملک کا توازنِ تجارت ناموافق رہا ہے وہاں سمگلنگ کا دھندا بھی عروج پر رہا۔ شرح سود کے 16 فیصد تک پہنچ جانے کی وجہ سے صنعتی اور تجارتی شعبہ بُری طرح متاثر ہوا۔ توانائی کے بحران اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے کی وجہ سے پیداواری عمل سست روی کا شکار رہا ۔ مہنگائی میں ریکارڈ توڑ اضافے کی وجہ سے جہاں غربت کی شرح میں اضافہ ہوا وہاں عوام کی قوتِ خرید جواب دے گئی۔ ادویات خاص کر جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ عوام کے منہ سے نوالہ، سر چھپانے کے لیے چھت اور علاج کے لیے ادویات تک چھین لی گئیں۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ملک اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے اور گیس کے بحران کی وجہ سے عوام کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں۔ عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتیں مسلسل گر رہی ہیں لیکن اسکا فائدہ عوام کو نہیں دیا جا رہا۔ مجموعی طور پر 2022ءہمارے ملک اور عوام پر بے حد گراں گزرا ہے اس کے باوجود ہم اپنی غلطیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں سے سبق نہیں سیکھ رہے ۔ ہماری انہی حرکتوں کی وجہ سے 2023ئء میں ہم کسی خطرناک بحران میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ (اللہ نہ کرے)