آزاد کشمیر :بھارت کا ممکنہ حملہ
سب سے پہلے میں اپنے تمام قارئین کو نئے سال کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اللہ کرے نیا سال ہمارے ملک اور ہماری قوم کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہو۔ آمین۔
معلوم نہیں بھارت کس بیماری میں مبتلا ہے کہ ہر دس پندرہ سالوں بعد کسی نہ کسی پڑوسی پر حملہ کر دیتا ہے۔ کہنے کو تو یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ا±س کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ بہت ہی امن پسند ملک ہے لیکن بد قسمتی سےامن اِس کی قسمت میں ہے ہی نہیں۔ پاکستان پر اب تک چار جنگیں م±سلط کر چکا ہے اور غالباًاتنی ہی جنگیں چین پر م±سلط کر چکا ہے۔لطف یہ ہے کہ مار کھانے کے باوجود تالیاں بجاتا ہے کہ "ہم جنگ جیت گئے۔"یہی بات عوام کے ذہنوں میں ٹھونسی رٹوائی جاتی ہے۔ بھارت کو کون سمجھائے کہ تاریخ ہمیشہ میدانِ جنگ میں لکھی جاتی ہے نہ کہ بچوں کی کتابوں میں فرضی قصّے کہانیوں سے۔ اِس سے بڑی فرضی بہادری بھلا کیا ہو سکتی ہے کہ آج سے دو سال پہلے بھارتی فائٹر پائلٹ ابھی نندن کا جہاز پاکستان نے مار گرایا۔ ابھی نندن یہاں پکڑا گیا۔جب وہ واپس گیا تو ا±سے بہت بڑے بہادری کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ شاباش بھارت شاباش۔ پاکستان کو ویسے تو چاروں جنگوں میں شکست کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن سب سے زیادہ مشرقی پاکستان میں شاندار فتح کی تعریف کی جاتی ہے۔اِس سلسلے میں صرف اتنی سی گزارش ہے کہ بہتر ہوتااپنی تعریف سے پہلے ا±س وقت کے اپنے بھارتی آرمی چیف جنرل (بعد میں فیلڈ مارشل) مانک شا کے ریمارکس یا بھارت کی مشہور ریسرچ سکالر سرمیلا بوس کی ریسرچ ڈیڈ ریکاننگ((Dead Reckoningہی پڑھ لیتے۔ چین سے تو بھارت ب±رے طریقے سے مار کھا چکا ہے۔ وہاں تو یہ کچھ کر نہیں سکتا۔اب ایک دفعہ پھر نظریں پاکستان کے آزاد کشمیر پرہیں حملے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ویسے یہ کوئی نئی بات نہیں بھارت کے تقریباً تمام آرمی چیفس اور وزیر دفاع ماضی میں بھی دھمکیاں دیتے رہے ہیں۔بڑھکیں مارتے رہے ہیں کہ وہ بیک وقت چین اور پاکستان دونوں سے لڑکر دونوں کو شکست دے سکتے ہیں۔س±بحان اللہ۔پہلے چین سے اپنی شکست کا بدلہ تو لےلیں۔اپنا ک±ھویا ہوا علاقہ واپس لیں۔م±صیبت یہ ہے کہ بڑھکیں مارنے پر کوئی پابندی نہیں۔ائیر کنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھ کر بیشک پاکستان کیاساری دنیا فتح کر لیں۔ میدانِ جنگ میں آئیں گے تو پتہ چل جائے گا۔لیکن نظر ایسے آتا ہے کہ چین سے تو بے عزتی کرالی۔اب پبلک میں اپنا بھرم رکھنے کے لیے آزادکشمیر پر چھوٹا بڑا حملہ یا 2016 ءکی طرح کی کوئی فوجی سٹرائیک کوئی بعید نہیں۔لہٰذا آئیں دیکھتے ہیں کہ اگر آزاد کشمیر پر(خ±دانخواستہ)جنگ تھوپی جاتی ہے تو یہ کیا ر±خ اختیار کر سکتی ہے۔آزادکشمیر کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔گلگت بلتستان اور پاکستانی آزاد کشمیر شمال میں چینی بارڈر کے ساتھ گلگت بلتستان کا علاقہ ہے جہاں سے چین کی سی پیک روڈ گزرتی ہے۔یہ تمام کا تمام علاقہ ب±لند پہاڑوں پر مشتمل ہے۔یہ تمام پہاڑ سردیوں میں برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔نقل و حرکت ممکن نہیں رہتی۔تمام راستے دریاو¿ں یا نالوں کے ساتھ ساتھ ہیں کسی بڑی فوج کی پیش قدمی ممکن نہیں۔نہ ہی یہاں ٹینکس یا توپ خانے کی نقل وحرکت ہوسکتی ہے۔ سری نگر سے گلگت اور اسکردوکے لیے صرف دو پاس ہیں۔اوّل ب±رزل پاس جو پاکستان کے پاس ہے اور دوم زوجیلہ پاس جو بھارت کے پاس ہے۔ جولائی تک اِس علاقے میں فوجی نقل و حرکت ممکن نہیں۔اور گرمیوں میں بھی بڑی محدود قسم کی موومنٹ ہوسکتی ہے۔ لہٰذا کسی بڑی زمینی جنگ کا تو وہاں سوچا ہی نہیں جاسکتا۔ لے دے کر بھارت گلگت اوراسکردو کے علاقوں میں اپنے کمانڈوز ا±تار سکتا ہے۔ لیکن کمانڈوز لیکر آنے والے جہاز ب±لند چوٹیوں کی وجہ سے رات کو تو آنہیں سکتے۔مجبوراً ا±نہیں یہ پیراڈراپنگ دِن کی روشنی میں کرنی پڑے گی اور دن کی روشنی میں ایک چھوٹی سی فورس بھی انہیں بھون کے رکھ سکتی ہے۔اور تو اور مقامی سِولین بھی انہیں نہیں ہلنے دیں گے ۔کیونکہ مقامی لوگ محب ِ وطن اور بہت دلیر لوگ ہیں۔ویسے اس سارے علاقے میں ہماری نادرن لائٹ انفنٹری موجود ہے جو کہ علاقے سے بخوبی واقف ہے اور بہت تربیت یافتہ ہے۔اِس قسم کی بھارتی کاروائی سے نپٹناا±ن کے لیے کوئی مشکل ہی نہیں۔لالک جان اور کرنیل شیر خان جیسے عظیم مجاہداِسی فوج کاحصّہ تھے۔ پاکستانی کشمیر کا دوسرا حصّہ آزاد کشمیر ہے۔
اب جب ہم شمالی علاقہ جات سے نیچے آزاد کشمیر میں آتے ہیں تو یہاں کا گراو¿نڈجنگی لحاظ سے دو حصّوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔اِس کا زیادہ تر حصّہ تو بالکل پہاڑی ہے۔گو شمالی علاقہ جات والی سردی اور برفانی چوٹیاں تونہیں لیکن پھر بھی اِسے پنجاب کی طرح کا ک±ھلا جنگی میدان بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ آزاد کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر ہمارا بہت مضبوط دفاع موجود ہے۔ا±ن کے پاس توپ خانے اور دیگر خطرناک قسم کے جنگی ہتھیار موجود ہیں۔لہٰذا لائن آف کنٹرول عبور کرنے کے لیے بھارتی فوج کو بہت سی قربانیاں دینی پڑینگی۔ ا±میدِ کامل ہے کہ جنگ کی شکست وفتح کا فیصلہ لائن آف کنٹرول پر ہی ہو جائیگا۔اگر خ±دانخواستہ لائن آف کنٹرول عبور کر ہی لی جاتی ہے۔تو پھر بھی کوئی فوج اس علاقے میں آزادی سے نہیں لڑ سکتی۔نقل و حرکت خصوصاً بڑی فوج کی ممکن نہیں۔نہ ہی ٹینکس اور توپ خانہ آزادی سے استعمال ہوسکتے ہیں۔اِنہیں لانے کا اور مخصوص مقامات پر فکس کرنا ممکن تو ہے مگر وقت بہت درکار ہوگاجبکہ جنگ میں ایک ایک سیکنڈ بڑا قیمتی ہوتا ہے۔معمولی سی دیر بعض اوقات جنگ کی قسمت بدل سکتی ہے۔نیپولین جیسا عظیم جنرل وقت میں دیری کی وجہ سے واٹرلو میں شکست کھاگیا ۔لہٰذا بھارتی جنرل کو اِس علاقے میں لڑائی سے پہلے بہت ک±چھ سوچنا ہو گا۔
ہمارا تیسرا گراو¿نڈ ہے بھمبر سیکٹر جو ایک طرح سے میدانی علاقہ ہے۔یہاں ٹینکس اور توپ خانہ ک±ھلے طور پر استعمال ہو سکتے ہیں۔ بڑی فوج کی نقل و حرکت میں بھی کوئی مشکل نہیں۔ لیکن اِس میں دو بڑے مسئلے پیش آسکتے ہیں۔ ایک تو راستے میں دریائے توی ہے اور دوسرا بھمبر نالہ۔ گ±و آجکل کے دورمیں اِس قسم کی ر±کاوٹوں کو عبور کرنا کوئی مشکل نہیں ،لیکن اِن پر پ±ل بنانے اور عبور کرنے کے لیے وقت تو درکار ہوتا ہے اور وقت ہی ہمارے لیے بڑا قیمتی ہتھیار ہوگا۔پھر بھارتی کمانڈر کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ پاکستانی لائن آف کنٹرول کے علاوہ لداخ کی لائن آف کنٹرول کا دفاع بھی اِسی 15 کور کا علاقہ ہے۔لہٰذا چین اور پاکستان دونوں ممالک کی کوشش ہو گی کہ مل کر بیّک وقت بھارت کو سینڈوچ کیا جائے۔ بھارتی فوج جتنی ہی بہادر اور دلیر کیوں نہ ہو وہ دو فرنٹ وار نہیں لڑ سکتی۔ایسے حالات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے ایک اور بہت بڑا ہتھیار مقبوضہ کشمیر میں انسرجنسی ہے جس نے ب±رے طریقے سے بھارتی فوج کو ا±لجھا رکھا ہے۔ پاکستان اور چین کے ساتھ جنگ کی صورت میں کشمیری م±جاہد ضرور اِس موقع سے فائدہ ا±ٹھانے کی کوشش کریں گے اور یوں یہ تین فرنٹ وار بن جائے گی۔عین ممکن ہے کہ یہ جنگ ک±چھ اور ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں کھینچ لے۔ لہٰذا ایسی جنگ بھارت کے لیے ان حالات میں بہت مشکل بلکہ خ±ود کشی کے م±ترادف ہوگی۔