توشہ خانہ کا المیہ
توشہ خانہ کا محکمہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1974 ء میں قائم کیا گیا تاکہ پاکستان کے صدور وزراء اعظم اور دیگر اہم ریاستی عہدیداروںکو ملنے والے غیر ملکی تحائف کا مکمل ریکارڈ رکھا جا سکے-پاکستان کی تاریخ کی طرح توشہ خانہ کی کہانی بھی بڑی المناک ہے- و
زارت خارجہ کے ایک سینئر ریٹائرڈ سفارت کار کے مطابق مڈل ایسٹ کے بادشاہ اور شہزادے جب رحیم یار خان شکار کے لیے آتے تو حکمران خاندانوں کے لیے تحفوں کے کنٹینر لے کر آتے جو رحیم یار خان سے سیدھے حکمرانوں کے گھروں میں پہنچا دیے جاتے اور ان کا سرکاری ر یکارڈ بھی نہ رکھا جاتا-
پاکستان کے صدور اور وزرائے اعظموں کو ملنے والے تحائف قوم کی امانت ہوتے ہیں جو دو ریاستوں کے درمیان خیر سگالی کے جذبات پیدا کرنے کے لیے دئیے جاتے ہیں- پاکستان کی جانب سے غیر ملکی اہم مہمانوں کو تحفے قومی خزانے سے دئیے جاتے ہیں- اس لیے بیرونی ممالک سے ملنے والے تحائف پر کسی شخصیت کا نہیں بلکہ ریاست کا حق ہوتا ہے-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے دعوے داروں کو علم ہو کہ ایک متفقہ حدیث کے مطابق جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو عامل بنا کر زکوۃ اور عشر جمع کرنے کے لئے دوسرے شہر میں روانہ کیا تو جب وہ صحابی واپس آئے تو انہوں نے زکوۃ کے مال کی دو ڈھیریاں بنائیں اور کہا کہ یہ ایک ڈھیری زکوۃ کی ہے اور دوسری اس مال کی ہے جو لوگوں نے مجھے تحفہ دیا ہے -
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم اپنے گھر میں بیٹھے تھے تو اس وقت تمہیں تحفہ کون دیتا تھا -
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا مال بیت المال میں جمع کرادیا- جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لئے اٹھارویں ترمیم میں آئین کا آرٹیکل 19 اے شامل کیا گیا جس کے مطابق پاکستان کے تمام شہریوں کو جاننے کا حق دیا گیا ہے اس آرٹیکل کے مطابق ہر شہری سرکاری ریکارڈ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے سوائے اس ریکارڈ کے جو قومی مفاد میں کلا سیفائیڈ یعنی خفیہ قرار دیاگیا ہو-
انفارمیشن ایکٹ 2017 ء بھی شہریوں کو پبلک ریکارڈ تک رسائی کا حق دیتا ہے- عوام کے جاننے کے حق کو یقینی بنانے کے لئے پاکستان انفارمیشن کمیشن( پی آئی سی) قائم کیا گیا ہے جو شہریوں کی شکایات سن کر سرکاری محکموں کو ہدایات جاری کرتا ہے-
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں نے اس سلسلے میں فیصلے دے رکھے ہیں جن میں جاننے کے حق کو ریاست کی شفافیت کے لیے انتہائی اہم قرار دیا گیا ہے-توشہ خانہ کیبنٹ ڈویژن کے تحت کام کرتا ہے- اوپر سے دباؤ آئے تو توشہ خانہ کا مجاز افسر تحفوں کی انفارمیشن دینے سے اس جواز پر انکار کر دیتا ہے کہ یہ کلاسیفائیڈ ہے جس کے افشاں ہونے سے تحفے دینے والے ملک کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں- عمران خان کے دور حکومت میں پاکستان کے صحافی رانا ابرار خالد کو وزیراعظم کو ملنے والے تحائف کی تفصیل دینے سے اسی بنا پر انکار کردیا گیا-
میاں شہباز شریف کے دور میں منیر احمد ایڈووکیٹ نے لاہور ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے کہ کیبنٹ ڈویژن کو یہ ہدایت جاری کی جائے کہ وہ 1947 ء سے لے کر اب تک پاکستان کے صدور اور وزرائے اعظم اور دیگر اہم شخصیات کو ملنے والے تحائف کا ریکارڈ فراہم کرے اور ان کی مارکیٹ ویلیو بھی بتائی جائے-لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عاصم حفیظ نے کیبنٹ ڈویژن سے یہ رپورٹ طلب کر لی ہے مگر حکومت وقت لیت و لال سے کام لے رہی ہے-
عمران خان نے وزیراعظم کی حیثیت سے بیرونی ممالک سے جو تحفے وصول کیے ان کی تفصیل تو جاری کر دی گئی ہے مگر آصف علی زرداری میاں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کو ملنے والے تحائف کی تفصیل دینے سے انکار کیا جا رہا ہے- جب بھی اپوزیشن جماعت اقتدار میں آتی ہے تو اس کے بیانات اور رویے ہی تبدیل ہو جاتے ہیں-
یاد رہے کہ ترکی کے صدر طیب اردگان کی بیگم نے سیلاب متاثرین کی حالت زار سے متاثرہوکر اپنے گلے سے ہار اتار کر ان کی امداد کے لیے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو دے دیا تھا جو انہوں نے توشہ خانہ میں جمع کرانے کی بجائے اپنے گھر میں رکھ لیا اور بعد میں میڈیا پر احتجاج ہوا تو انہوں نے قیمتی ہار توشہ خانہ میں جمع کرا دیا-
توشہ خانہ کے تحائف کی سلسلے میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے پر آصف علی زرداری میاں نواز شریف اور عمران خان کے خلاف ریفرنس دائر کیے گئے البتہ سزا صرف عمران خان کو سنائی گئی- ان کی قومی اسمبلی کی رکنیت ختم کردی گئی اور ان کے خلاف فوجداری کیس بنانے کے لیے ریفرنس مجاز عدالت کو روانہ کر دیا گیا- پاکستان کی روایت کو قائم رکھا گیا ہے جن لوگوں نے توشہ خانے سے قیمتی گاڑیاں حاصل کرلیں ان بڑے ملزموں کو کوئی سزا نہیں دی گئی جبکہ عمران خان کو ایک گھڑی وصول کرنے پر سزا سنا دی گئی ہے-
آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے خلاف گزشتہ تیس برسوں کے دوران کرپشن کے کئی سکینڈل منظر عام پر آئے-عمران خان کرپشن احتساب تبدیلی اور نیا پاکستان کے نعروں کی عوامی لہر پر سوار ہوکر پاکستان کے وزیراعظم بنے-
پاکستان کے عوام کو ان سے یہ توقع تھی کہ وہ ریاست اور گورنینس میں شفافیت لائیں گے- افسوس وہ توشہ خانہ کے چمکدار تحفوں کی چمک کا شکار ہوگئے-انہوں نے خود ہی یہ قانون بنایا کہ توشہ خانہ سے تحائف بیس فیصد نہیں بلکہ پچاس فیصد مارکیٹ قیمت ادا کر کے لیے جاسکیں گے-
افسوس عمران خان نے اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قیمتی تحفے 20 فیصد کی قیمت ادا کر کے وصول کئے اور اس پر مزید ستم یہ کیا کہ ان کو اپنے پاس رکھنے کی بجائے انہیں فروخت کر دیا اور مادیت روحانیت پر غالب آگئی-
عمران خان کے پسندیدہ لیڈر ملائیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد نے میوزیم میں ایک سپیشل گیلری بنوائی جس میں عوام کی نمائش کے لیے غیر ملکی تحائف کو رکھا گیا اور قواعد و ضوابط بنا کر کسی کو یہ تحفے خریدنے کی اجازت نہ دی- بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے سو بلین روپے کے تحفے نیلام کر دیے اور وصول ہونے والی رقم خواتین کی تعلیم کے لیے مختص کردی- افسوس عمران خان توشہ خانہ کے تحائف کے سلسلے میں شاندار اور یادگار روایت قائم نہ کر سکے-
٭…٭…٭