• news
  • image

بلاول کے خلاف بھارتی ہرزہ سرائی پر میڈیا میں خاموشی

گزشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے پاکستان کے ہر دلعزیز وزیر خارجہ جن کی کامیاب سفارت کاری کی ایک دنیا معترف ہے کے بارے کہا کہ بلاول بھٹو نے اپنے بیرون ملک دوروں پر دو ارب روپے خرچ کئے ہیں اس سے پہلے ان کی پارٹی کے دیگر راہنما بھی اسی طرح کی خیال آرائی کر چکے ہیں، پی ٹی آئی کے چئیر مین بارے اب دنیا بھر میں یہ بات مشہور ہو چکی ہے کہ وہ بولنے سے پہلے نہ سوچتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی معلومات رکھتے ہیں۔ وہ خود وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور انہوں نے متعدد دورے کئے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بیرون ملک دور ے کیوں کئے جاتے ہیں اور پھر عمران خان نے دنیا بھر میں پاکستان کا جو امیج مسخ کیا ہے اسے زائل کرنے اور پاکستان کا مثبت امیج ابھارنے کیلئے تو اس طرح کے دورے اور بھی ناگزیر ہوجاتے ہیں۔ لیکن عمران خان کی پوری سیاسی زندگی کا حاصل صرف نفرت الزام اور اپنے مخالفین کیخلاف جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا ہے۔ اس لئے انہوں نے ہر روز ایک نیا جھوٹ گھڑنا ہوتا ہے جسے وہ بیان کر کے سیاست میں زندہ رہ سکیں۔ بلاول بھٹو کے خلاف بیان بھی ان کی اس خواہش کا منہ بولتا ثبوت ہے حالانکہ وہ اگر حالات و حقائق سے آگاہ ہوتے تو انہیں پتہ چلتا کہ بلاول بھٹو نے نہ تو کوئی’’ اے ٹی ایم مشین‘‘ رکھی ہے جس سے جب چاہیں پیسے نکلوا لیں اور نہ چندے کے پیسوں سے دورے کرتے ہیں اور نہ ہی قومی خزانے کو شیر مادر سمجھتے ہیں بلکہ وہ اپنے اخراجات خود ادا کرتے ہیں۔ جس کے بارے میڈیا میں  واضح طور پر اپنا موقف بیان کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے بیرون ملک دوروں کی تفصیلات سامنے رکھتے ہوئے کہا تھا کہ میں پاکستان کا واحد وزیر خارجہ ہوں جو اپنا ٹکٹ خریدتا ہے اور ہوٹل کا بل بھی خود ادا کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں اپنے بیرون ملک دوروں کے اخراجات کا بوجھ قومی خزانے پر نہیں ڈالتا ،اگر ایسا کرتا بھی تو بطور وزیر خارجہ یہ میرا استحقاق ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میرے بیرون ملک دوروں کا فائدہ میری ذات کو نہیں عوام کو ہوا ہے،میری محنت کی وجہ سے پاکستان فیٹف گرے لسٹ سے نکلا اور ملک کو معاشی فوائد حاصل ہوئے۔ بلاول بھٹو زرادی کا مزاج ایسا نہیں اور نہ ہی ان کی ایسی تربیت ہے کہ وہ ہر ایک کی باتوں کا جواب دیتے پھریں لیکن وہ اس بات سے آگاہ ضرور ہیں کہ جھوٹے پراپیگنڈے کو اگر یونہی چلنے دیا جاے تو جھوٹ بچے دینا شروع ہو جاتا ہے اس لئے بر وقت جواب دینا ضروری تھا۔دوسری جانب انکے ایک بیان جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بھارت کو بتانا چاہتا ہوں کہ ’’اسامہ بن لادن تو مر چکا لیکن گجرات کا قصائی زندہ ہے‘‘ پر بھارت میں نفرت کی سیاست کو فروغ دینے والی  انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈر نے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے سر کی قیمت لگائی ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق بلاول بھٹو کیخلاف بی جے پی کے مقامی رہنما منوپال بنسال نے اشتعال انگیزی کرتے ہوئے انکے سر کی قیمت لگائی ہے۔ جس کا جواب دیتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’میں ایک تاریخی حقیقت کے بارے میں بات کر رہا تھا، میں نے جو الفاظ استعمال کیے وہ میرے الفاظ نہیں تھے، میں نے وہ الفاظ نہیں بنائے، میں نے خود مودی کیلئے ’گجرات کا قصائی‘ کے الفاظ استعمال نہیں کیا، گجرات فسادات کے بعد خود انڈیا کے مسلمانوں نے ان کیلئے یہ لفظ استعمال کیا۔ میرے خیال میں میں نے ایک تاریخی حقیقت کو دہرایا ہے، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ تاریخی حقیقت کو دہرانا ذاتی حملہ نہیں ہے‘۔انہوں نے بی جے پی رکن کی طرف سے دی گئی دھمکی کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا ’اگر میں کسی اور کا حوالہ دوں، اور ایک تاریخی حقیقت کے بارے میں بات کروں جسے مسٹر مودی چاہیں گے کہ ہم بھول جائیں، تو اس کا ردعمل قتل کرنے کی دھمکی نہیں ہونا چاہیے۔
 ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے موقف کو ایک بار پھر دہراتے ہوئے کہا تھا کہ مودی حکومت گجرات میں انتہائی مظالم ڈھا رہی ہے اور بھارتی مسلمان مودی حکومت کے تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔یاد رہے کہ بلاول بھٹو نے اپنے دورہ ٗامریکا کے دوران نیو یارک میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ کے بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ گجرات کا قصائی بھارت کا وزیراعظم بن چکا ہے۔ موجودہ بھارتی حکومت ہٹلر سے متاثر ہے، مودی حکومت گاندھی کے قاتلوں کے نظریے پر یقین رکھتی ہے۔
 لیکن اس سارے منظر نامے میں ایک طرف بھارت میں بلاول بھٹو زرداری جو پاکستان کی ایک بڑی پارٹی کے چیئر مین ہونے کے ساتھ پاکستان کے وزیر خارجہ بھی ہیں کیخلاف بھارت میں ہونے والے مظاہروں قتل کی دھمکیوں کے ساتھ انعامات سے وہاں کے اخبارات بھرے پڑے ہیں جبکہ چینلز اس مسئلے کو مزید ابھار رہے ہیں ایسی صورتحال میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی خاموشی چہ معنی دارد۔
ضرورت ا س امر کی ہے کہ پاکستان کے وزیر داخلہ نے مودی کے بارے جن تاریخی حقائق کا   زکر کیا اور حقائق دنیا کے سامنے رکھے پاکستانی سیاست دانوں اور میڈیا کو اس کی توصیف کرنے کے ساتھ بھارتی میڈیا کو منہ توڑ جواب دینا چاہیے تھا لیکن مین سٹریم میڈیا میں خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ کوئی مسئلہ اتنا اہم نہیں ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے چیئر مین الزامات لگا رہے ہیں کیا یہ قومی رویہ درست ہے؟ اس سوال کو ہم قوم کے سامنے چھوڑتے ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن