• news
  • image

کیا کرۂ ارض کے بڑھتے درجہ حرارت پر قابو پایا جاسکے گا؟

2021ء میں برطانیہ میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی سربراہی اجلاس میں تقریباً 200 ممالک نے آلودگی میں کمی لانے کیلئے جس عزم کا اعادہ کیا تھا اس پر عملدآرمد تاحال نہ ہو سکا۔ مصر میں ہونیوالی ’’کوپ 27‘‘ سربراہی اجلاس میں ایک مرتبہ پھر گلوبل وارمنگ میں بڑھتے درجہ حرارت کو کم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔  اس پر کتنا عملدرآمد ہوتا ہے‘ یہ آنیوالا وقت ہی بتائے گا۔ موسمیاتی تبدیلی میں اضافہ حقیقت میں اقوام عالم کیلئے ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جس سے روئے زمین پر پائے جانے والے تمام جانداروں کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ اس بڑھتی آلودگی سے اوزون کی حفاظتی تہہ کو نقصان پہنچنے سے سورج سے نکلنے والی مضر صحت شعاعیں براہ راست زمین پر پہنچ کر کئی بیماریوں کو جنم دے رہی ہیں۔ گرین ہائوس گیسوں کو محدود کرنے کیلئے امریکہ نے جو عالمی معاہدہ کیا تھا‘ اس پر بھی اب تک عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ چین نے اپنے پاور سیکٹر میں فضائی آلودگی کا سبب بننے والے ذرائع سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں ساٹھ فیصد تک کمی کیلئے 2024ء تک کی مہلت لی ہوئی ہے جبکہ پاکستان‘ بھارت اور بعض خلیجی ریاستوں نے اپنی معاشی کے پیش نظر 2028ء تک کی مہلت لے رکھی ہے۔ ویسے تو ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے عالمی سطح پر کئی معاہدے ہو چکے ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک معاہدے پر بھی عملدرآمد کی نوبت تاحال نہ آسکی۔1987ء میں اوزون کو نقصان پہنچانے والی گیسز کے اخراج کو کم کرنے کیلئے جو معاہدہ کیا گیا‘ 1990ء اور 1992ء میں اسے کارگر بنانے کیلئے عالمی سطح پر متعدد اجلاس منعقد کئے گئے مگر افسوس مطلوبہ اہداف پھر بھی حاصل نہ ہو پائے۔ اقوام متحدہ کے جاپان میں ہونیوالے آب و ہوا کی تبدیلی کے تیسرے فریم ورک کنونشن میں 160 سے زائد ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے جس کے تحت متعین کردہ اہداف میں اس ایجنڈے کو فوقیت دی گئی کہ گرین ہائوس گیسز جو گلوبل وارمنگ کی سب سے بڑی وجہ بن رہی ہیں‘ انکے اخراج کو کم سے کم کیا جائیگا لیکن فروری 2005ء میں جب اس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آیا تو امریکہ نے اسکی توثیق سے انکار کر دیا۔ 
حال ہی میں مصر میں ہونیوالی کوپ27 سربراہی اجلاس میں یہ مسئلہ پھر شدومد سے اٹھایا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تمام ممالک کی موجودہ پالیسیاں کرۂ ارض کو تقریباً دو گنا رفتار سے گرم کر رہی ہیں کیونکہ کوئلے کے استعمال اور میتھین گیس کے اخراج میں کمی لانے کے دعوئوں کے باوجود کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکا۔ حالانکہ میتھین ایسی گیس ہے جو اپنا وجود زیادہ دیر بحال نہیں رکھ پاتی لیکن بیس برس کے عرصے میں اس گیس نے کرۂ ارض کو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے کم از کم 80 فیصد زیادہ گرم کیا ہے۔ تیل کمپنیاں میتھین جیسی زہریلی گیس کے اخراج کو کم کرنے میں سستی سے کام لے رہی ہیں جبکہ بہت سے ممالک نے اسکے اخراج میں کمی کے معاہدے پر ابھی تک دستخط بھی کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ 119 دستخط کنندگان میں سے صرف پندرہ نے میتھین کے اخراج میں ممکنہ کمی لانے سے متعلق اپنے اہداف ظاہر کئے ہیں۔ 
ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے جہاں دنیا کی مجموعی اقتصادی پیداوار میں کمی دیکھنے میں آئی ہے‘ وہیں مختلف صنعتوں اور ٹرانسپورٹ سے خارج ہونیوالے نائٹروجن اور کاربن کے مرکبات سے بھی فضائی آلودگی میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ گرین ہائوس گیسز کے اخراج اور آلودگی کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں گزشتہ چند دہائیوں سے تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ یہ موسمی تغیروتبدل کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیا کے کئی ممالک کو طوفانی بارشوں‘ سیلابی ریلوں اور سمندری طوفانوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موسمیاتی تبدیلی میں سب سے زیادہ کردار ان ممالک کا ہی ہے جو نت نئے سائنسی تجربات میں مصروف ہیں۔ میزائل‘ ایٹمی اسلحہ‘ بارود کے تجربات کے علاوہ مصنوعی طور پر لائے گئے طوفانوں اور بارشوں نے اس کرۂ ارض کا نظام ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ یہ خود بھی ان تبدیلیوں کی زد میں ہیں۔ ایک طرف دنیا توانائی کے بحران کا شکار ہونے جا رہی ہے‘ کیونکہ پٹرولیم مصنوعات سے چلنے والے کارخانے اور ٹرانسپورٹ پر انحصار کم کرنے کا سوچا جا رہا ہے جس کیلئے کوئلے سے توانائی کے ذرائع تلاش کئے جا رہے ہیں۔ 
ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہونیوالے ممالک کا اگر موازنہ کیا جائے تو ان میں پہلے نمبر پر چین‘ دوسرا بھارت‘ تیسرا روس‘ چوتھا پاکستان جبکہ یوکرائن کا پانچواں نمبر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ماحولیاتی آلودگی سے ہر سال دنیا بھر میں مجموعی طور پر کم و بیش 90 لاکھ‘ پاکستان میں 60 ہزار اور برطانیہ میں تقریباً پچاس ہزار کے لگ بھگ اموات ہو رہی ہیں۔ ان اموات کی شرح بھارت اور چین میں سب سے زیادہ دیکھنے میں آرہی ہے۔ گلیشیئرز کے بارے میں ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس صدی کے آخر تک ان کا 80 فیصد حصہ پگھل کر ختم ہو جائیگا جس کے بداثرات لامحالہ کرۂ ارض پر بسنے والے انسانوں پر ہی پڑیں گے جبکہ دیگر جاندار بھی متاثر ہوئے بغیر نہیںرہ پائیں گے۔ فصلوں کی تباہی اور اسکے نتیجے میں غذائی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آلودگی اور حدت کو کم کرنے کے اقدامات بجا طور پر قابل تحسین ہیں لیکن اصل مسئلہ ان معاہدوں پر عملدرآمد کا ہے جن پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جا رہی۔ 

epaper

ای پیپر-دی نیشن