افواج پاکستان، تفاخر و محافظ پاکستان
وطنِ عزیز میں یوں تو بے شمار احوال زیر بحث لائے جا رہے ہیں اُن میں سے بعض حقیقی ہیں اور بعض محض افسانہ طرازی سے زیادہ کسی حیثیت کے حامل نہیں ہیں۔ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تعلیمی مسائل کی اہمیت اپنی جگہ کم نہیں لیکن قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ ہر کس و ناکس جیسے قومی اُلجھنوں کی خبر ہی نہیں وہ بھی نام نہاد سوشل میڈیا پر کئے گئے روزمرہ تبصروں سے متاثر ہو رہا ہے۔ خاص کر ہمارے بعض سیاستدان، خاص کر سابق وزیر اعظم عمران خان، جن کے بارے میں میں کیا کئی صاحبان فہم فراست یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ محض اقتدار اور نفس کی تسکین کے لیے ملک کے ان تمام اداروں کو مطعون کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ افواجِ پاکستان نے نہ صرف وطنِ پاک کی سرحدات کی حفاظت، اندرونی و بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی قسم کی قربانی سے گریز نہیں کیا۔ خاص کر ہمارے ازلی دشمن بھارت، جس کی ابتدائی کانگرسی قیادت نے یہ تہیہ کیا بلکہ عزم صمیم کر رکھا ہے کہ ’’پاکستان کو قائم نہیں رہنے دینا‘‘ دیکھنا یہ ہے کہ آیا ہم اپنی قابلِ تفاخر افواج کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اور اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ افواج ہم میں سے اور ہم بھی اپنی افواج کے لیے ہیں۔ اگر مسلم سپاہ کی اہمیت کی بات کی جائے تو امر مسلمہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے پہلے بھی انڈین امپیریل فوج میں 65 فیصد سپاہ مسلمانوں پر مشتمل تھی جن کی خدمات کو اس دور میں بھی سراہا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں کو جلد کئے کمشن میں شامل ہونے کے مواقع کم میسر تھے۔
1945-46ء کے انتخابات کے بعد جب حکومت سازی کے لیے ڈیڈ لاک پیدا ہوا تو قائد اعظم نے مسلمانوں کے حقوق کی پامالی اور انگریز ہندو ملی بھگت کہ مسلمانوں کو غلام تو رکھا جائے لیکن انہیں حکومت سازی میں ان کا جائز حق نہ دیا جائے، خاص کر قیامِ پاکستان کو روکنا ان دونوں یعنی انگریز ہند گٹھ جوڑ کا خفیہ ایجنڈا تھا۔ ان معروضی حالات میں قائد اعظم نے -16 اگست 1946ء کو ڈائریکٹ ایکشن کی دھمکی کیوں دی تھی کہ اگر حکومت آزادی کے راستہ میں مزاحم ہوتی ہے تو ہم اپنی آزادی چھین لیں گے۔ جس کے نتیجے میں اس دور میں بھی صوبہ بہار میں ہندو مسلم فسادات ہوئے جس کی وجہ سے ایک ہی دن میں سینکڑوں مسلمان شہید ہوئے۔
خود وائسرائے لارڈ ویول نے ان خونی فسادات کے پیشِ نظر حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ ہندوستان کی تقسیم ناگزیر ہے ورنہ یہ دونوں قومیں ایک دوسرے کے وجود کو ملیامیٹ کر دیں گی۔ گاندھی نے اسی لیے لارڈ ایٹلی کو لکھ بھیجا کہ آپ کا وائسرائے کمزور ہو گیا ہے اسے بدلا جائے۔ میرا قارئین اور تمام سیاسی قائدین بشمول عمران خان، جن کو اقتدار میں لانے کا سہرا بھی افواج پاکستان کے سر ہے۔ اپنی فوج کو نشانۂ بغض نہ بنایا جائے۔ قائد اعظم کو اپنی سپاہ پر ناز تھا اور وہ بھی اس حقیقت کو پیشِِ نظر رکھتے تھے۔ وگرنہ انگریز اور ہندو تقسیم پر کبھی بھی تیار نہ ہوتے اور قائداعظم نہ صرف آئینی و سیاسی گتھیوں کو سلجھانے کا فن جانتے تھے بلکہ بروقت قدم اُٹھانے کا ہنر بھی آپ کو آتا تھا۔ وطن ہے تو ہم ہیں اور وطن کے سیاسی مسائل کو سلجھانے کا فریضہ سیاستدانوں کا ہے جن کی معاونت کرنا ملکی ماہرین کا کام ہے لیکن اس بات سے اجتناب کیا جائے کہ ہر ایرہ غیرہ ان معاملات کو زیرِ بحث لائے جن سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ مقولہ ہے ’’امورِ خسرواں، خسرواں و انند‘‘ میاں محمد بخش نے نہایت خوبصورت بات کی، ’’خاصاں دی گل عاماں اگے نئیں مناسب کرنی‘‘ سیاسی و پارلیمانی امور کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی بحث و تمحیص کے لیے عوامی جذبات و احساسات کی ترجمانی کے لیے مرکزی اور صوبائی مجالس موجود ہیں لہٰذا پارلیمنٹ کا تقدس اگر خود ممبران پارلیمنٹ کریں گے تو نظام چلنے کی بجائے منجمد ہو جائے گا۔ عمران خان بنیادی طور پر محض کرکٹر ہیں، بیشک وہ مغربی نظام تعلیم کے پروردہ ہیں لیکن مغربی نظامِ پارلیمنٹ سے وہ بالکل ناآشنا ہیں۔ دعویدار ریاستِ مدینہ کے مگر ریاستِ مدینہ کی کسی ایک روایت کو بالکل نہیں جانتے۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ و بارک وسلم کے دور میں کوئی مسلمان عہد شکنی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ نبیٔ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم دفاع ریاست مدینہ کو بقیہ امور پر ترجیح دیتے لہٰذا موجودہ اور سابق حکمران خداراہ اپنی عساکر کے امور کو زبربحث لانے سے اجتناب کریں۔