• news

ارشد شریف قتل کیس کینیا کی حد تک تحقیقات صفر مداخلت نہیں کر رہے: سپریم کورٹ



اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ارشد شریف کا قتل ایک سنگین جرم ہے۔ تحقیقات میں سنجیدہ ہیں۔ اختیار ہونے کے باوجود مداخلت نہیں کر رہے۔ ارشد شریف کی اہلیہ نے جے آئی ٹی کے دو ممبران پر اعتراض عائد کرتے ہوئے عدالت سے سازش اور دہشتگردی کی دفعات بھی مقدمہ میں شامل کرنے کی استدعا کی۔ ارشد شریف قتل کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔  ایڈیشنل اٹارنی جنرل  نے بتایا کہ کیس کے تین پہلو ہیں۔ پہلا پاکستان، دوسرا دبئی اور تیسرا کینیا میں تحقیقات ہیں۔ پاکستان میں تحقیقات میں 41 سے زائد افراد کے بیانات ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ مختلف فرانزک کرائے گئے ہیں۔ کینیا حکومت سے بھی تحقیقات کیلئے درخواست کی گئی ہے لیکن انکی جانب سے کرسمس کی چھٹیوں کا موقف اپناتے ہوئے 15 جنوری کے بعد رابطہ کا کہا گیا ہے۔ ہماری جانب سے 27 دسمبر کی اجازت مانگی گئی تھی لیکن کینیا کی حکومت نے جواب دیا کہ تمام متعلقہ افراد کرسمس کی چھٹیوں پر ہیں۔ اب ٹیم پہلے یو اے ای جائے گی پھر وہاں سے تحقیقات مکمل کرکے کینیا جایا جائے گا۔ وہاں سے شواہد کے بعد ہی حتمی رپورٹ داخل کی جائے گی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جب تک کینیا کی حکومت لوگوں تک رسائی نہیں دیتی تحقیقات کیسے مکمل ہو ں گی، کیا کسی لیول پر کوئی بات ہوئی، افرادکی فہرست دی گئی ہے۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا حکومت کی جانب سے میوچل لیگل اسسٹنس کیلئے کل درخواست کی گئی ہے تاکہ ہونے والی تمام کارروائی کو باقاعدہ قانونی طور پر ریکارڈ میں شامل کیا جا سکے۔ تاہم ابھی تک جواب نہیں آیا۔ چیف جسٹس  نے استفسار کیا کہ کیا جے آئی ٹی کو مطلوبہ فنڈز فراہم کئے گئے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا فوری مطلوبہ فنڈز فراہم کر دئیے تھے جس کی منظوری آئندہ بجٹ میں لی جائے گی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کسی کا ویڈیو پر بھی بیان لیا گیا ہے۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا فرانزک سائنس، رشتہ داروں اور حکومتی عہدیداروں کے بیانات لئے گئے ہیں۔ ملک سے باہر بیانات کے حوالے سے بھی دو آپشن ہیں کہ پہلے بیرون ملک جا کر بیانات لئے جائیں شواہد حاصل کئے جائیں پھر ریڈ وارنٹ حاصل کئے جائیں۔ براہ راست وارنٹس حاصل کرنے کی کوشش کرنے کا فائدہ نہیں ہو گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پاکستان میں  تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا زیادہ حصہ مکمل ہو چکا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کیا جے آئی ٹی کو تحقیقات کے حوالے کوئی ٹائم لائن دی گئی ہے۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا دوسرے ممالک کے شامل ہونے کی وجہ سے ٹائم لائن دی نہیں جا سکتی۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کیا کوئی بیانات 161 کے تحت ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ جس پر جے آئی ٹی کے سربراہ  نے عدالت کو بتایا کہ تمام بیانات کو ضمنیوں میں شامل کیا گیا ہے۔ جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا ضمنی کا بیان میں 161 کی طرح ہی ہوتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا یو این یا کسی ایسی ادارے سے رابطہ کیا گیا جس کی تمام ممالک میں کریڈیبیلٹی ہو۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا وزارت خارجہ نے یقین دہانی کرائی ہے جب بھی ایسی ضرورت ہو گی فوری اقدامات کئے جائیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کینیا کی حد تک تو ابھی تحقیقات صفر ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا میوچل لیگل اسسٹنس کیلئے اتنی تاخیر سے کیوں لکھا گیا۔ جس پر جے آئی ٹی نے بتایا کہ ہم نے فوری میوچل لیگل اسسٹنس کا کہہ دیا تھا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے آبزرویشنز دیتے ہوئے کہا کیا یو این کے حوالے سے کوئی تحریری طور پر بھی اقدامات کئے گئے ہیں، ہم فی الحال جے آئی ٹی کو مکمل آزادی دے رہے ہیں، عدالتی تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں، معاملہ کی  آزاد تحقیقات ہونی چاہئے، ہمارے پاس مداخلت کا اختیار ہے لیکن ہم مداخلت نہیں کر رہے، بتا دیں ہم تحقیقات میں سنجیدہ ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا یہ ایک سنگین جرم ہے، عدالت سے ابھی کیا تعاون چاہئے۔ ارشد شریف کی اہلیہ کی درخواست  پر چیف جسٹس نے کہا ہم ریٹائرڈ ملازمین کو شامل نہیں کریں گے، بد اعتمادی پر مت چلیں ، آپ جب چاہیں ہم آپ کو سنیں گے، اعتماد سے ہی ادارے چلیں گے، بعض دفعہ ماتحت بھی بہت کچھ کر جاتے ہیں، جے آئی ٹی نے جو اقدامات کئے وہ 20دن پہلے ہونے چاہئے تھے، امید ہے جے آئی ٹی بات ذہن نشین کرلے، رپورٹ میں کچھ باتیں بہت گہری ہیں جو ابھی نہیں کر سکتے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تحقیقات پر ہماری مکمل نظر ہے، سمیعہ ارشد نے کہا کیس میں 109 اور 7 اے ٹی اے کو بھی شامل کیا جائے۔ جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا 109 سے پہلے 107 لگے گا، کوئی میٹنگ یا تحقیقات میں کچھ بھی ہو گا تو ہم بیٹھے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا جے آئی ٹی کا کام یہ ہے کہ کون لوگ تھے کس کے تعاون سے یہ سب ہوا پتہ لگائیں۔ چیف جسٹس نے کہا ارشد شریف کے کچھ ڈیجیٹل آلات ہیں جو ابھی تک نہیں ملے، کیا جے آئی ٹی کو یہ پتہ چلا کہ وہ آلات کدھر ہیں، پتہ چلائیں وہ ڈیجٹل آلات کینین پولیس، انٹیلیجنس یا ان دو بھائیوں کے پاس ہیں، یہ جے آئی ٹی کیلئے ٹیسٹ کیس ہے، اقوام متحدہ کو تحقیقات میں شامل کرنے کیلئے وزارت خارجہ سے ڈسکس کریں، وفاقی حکومت نے جے آئی ٹی کو تحقیقات کیلئے فنڈز فراہم کئے ہیں۔ جس کے بعد عدالت نے قرار دیا کہ اصل ایشو ارشد شریف قتل کی تحقیقات اور شواہد کا ہے، امید کرتے ہیں جے آئی ٹی معاملے پر اچھی طرح تیار ہو کر تحقیقات کیلئے بیرون ملک جائے گی۔ عدالت نے مزید سماعت فروری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔
ارشد شریف کیس 

ای پیپر-دی نیشن