• news

عالمی موسمیاتی کانفرنس سے 16ارب ڈالر ملنے کی توقع : ملک مضبوط بنانے کے مشکل سفر کا آغاز : شہباز شریف 

اسلام آباد (خصوصی نامہ نگار+ نوائے وقت رپورٹ) کلائمیٹ ریزیلیئنٹ بین الاقوامی کانفرنس سے پاکستان کو بین الاقوامی برادری سے 16 ارب 26 کروڑ ڈالرز ملنے کی توقعات ہیں۔ تفصیلات کے مطابق کلائمیٹ ریزیلیئنٹ بین الاقوامی کانفرنس 9 جنوری کو جنیوا میں ہوگی۔ وفاقی حکومت نے جنیوا کانفرنس کے فور آر ایف فریم ورک کو حتمی شکل دیدی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف جنیوا کانفرنس میں سیلاب کی تباہ کاریوں، بحالی پر بریفنگ دیں گے۔ فور آر ایف فریم ورک رپورٹ کے مطابق حالیہ سیلاب سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آیا، پاکستان کو بین الاقوامی برادری سے 16 ارب 26 کروڑ ڈالرز ملنے کی توقع ہے۔ پاکستان کو فوری ایک سال میں 6 ارب 78 کروڑ ڈالرز درکار ہیں، آئندہ 3 سال میں پاکستان کو 6 ارب 17 کروڑ سے زائد ڈالرز کی ضرورت ہے، لانگ ٹرم امداد میں 5 سے 7 سال میں پاکستان کو 3 ارب 62 کروڑ سے زائد ڈالرز درکار ہیں۔ فریم ورک کے مطابق پاکستان کا سیلاب سے مجموعی 15 ارب 32 کروڑ ڈالرز کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے، سیلاب سے چاروں صوبوں کے 94 اضلاع جبکہ 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے، سیلاب سے 80 لاکھ لوگ بے گھر اور 17 سو افراد جاں بحق ہوئے، جاں بحق ہونے والوں میں ایک تہائی اموات بچوں کی ہوئیں۔ رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا، زراعت کو 3 ارب 72 کروڑ ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوا، زراعت کی بحالی پر 4 ارب 27کروڑ ڈالرز کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کامرس، انڈسٹری، سیاحت کو 19 کروڑ اسی لاکھ ڈالرز کا نقصان پہنچا، کامرس، انڈسٹری، سیاحت اور کاروبار کی بحالی پر 17 لاکھ ڈالرز کا تخمینہ لگایا گیا، سیلاب سے 8 ہزار 330 کلومیٹر سڑکیں متاثر، 3127 کلومیٹر ریلوے ٹریک متاثر ہوا، ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کو مجموعی طور پر33 لاکھ ڈالرز کا نقصان پہنچا۔ فریم ورک کے مطابق سیلاب سے 20 لاکھ گھروں کی عمارتوں کو نقصان پہنچا، 7 لاکھ 80 ہزار مکانات سیلاب سے مکمل تباہ ہوئے، گھروں کی بحالی کے لئے 28 لاکھ ڈالرز درکار ہوں گے۔ وزیر خزانہ بلاول بھٹو زرداری عالمی  ڈونرز کانفرنس میں شرکت کیلئے جائیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ آج روانہ ہوں گے۔
اسلام آباد (خبرنگارخصوصی) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جنیوا کانفرنس کو ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے اور بحالی و تعمیر نو کے ساتھ ساتھ موسمیاتی اعتبار سے پاکستان کو ایک مضبوط ملک بنانے کے ایک طویل اور مشکل سفر کا آغاز  قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے نتائج سے لاکھوں سیلاب متاثرین کو یقین ملے گا کہ انہیں فراموش نہیں کیا گیا۔ عالمی برادری بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں میں مدد کرے گی۔ جنیوا کانفرنس ہماری مشترکہ انسانیت اور سخاوت کے جذبے کی علامت اور ان تمام لوگوں اور ممالک کے لئے امید کا ذریعہ بنے گی جنہیں مستقبل میں قدرتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں تباہ کن بارشوں اور سیلاب سے 1,700  افراد کی جانیں گئیں، 33 ملین لوگ متاثر ہوئے جبکہ سندھ اور بلوچستان صوبوں کے بڑے حصے بدستور زیر آب ہیں۔ پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کے شکار افراد کی تعداد دوگنی ہو کر 14 ملین ہو گئی ہے، مزید 9 ملین افراد انتہائی غربت کا شکار ہو گئے۔  انہوں نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقے اب مستقل جھیلوں کے ایک بڑے سلسلے کی طرح نظر آتے ہیں، اس پانی کو ایک سال سے کم وقت میں نہیں نکالا جا سکتا۔ جبکہ تشویش یہ ہے کہ ان علاقوں میں جولائی 2023 تک دوبارہ سیلاب آسکتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان صرف سیلاب سے ہی نہیں بلکہ بار بار رونما ہونے والی آب و ہوا کی شدتوں سے بھی دوچار ہے، اس سے پہلے 2022 میں ملک ایک ہیٹ ویو کی لپیٹ میں رہا جس سے خشک سالی اور جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ پاکستانیوں نے اس تازہ ترین آفت کا مثالی انداز میں مقابلہ کیا۔  پہلے سے ہی شدید معاشی بحران کے باوجود حکومت نے 20 لاکھ سے زیادہ گھرانوں کو 250 ملین ڈالر سے زیادہ کی براہ راست نقد رقم کی منتقلی کے لئے فنڈز کا انتظام کرنے کے لئے کوشش کی۔  مجموعی طور پر ہم اپنے محدود وسائل سے ہنگامی امداد میں تقریبا 1.5 بلین ڈالر جمع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عالمی برادری اور پاکستان کے دوستوں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے بدترین صورتحال سے بچنے میں ہماری مدد کی جبکہ عالمی ادارہ صحت نے اس صورتحال کو اعلی سطح کی صحت کی ایمرجنسی قرار دیا تھا، لیکن ہم موثر کام کی وجہ سے امراض کو پھیلنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ شہروں اور دیہاتوں کے درمیان تباہ شدہ مواصلاتی نیٹ ورک کو بھی بہت جلد بحال کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے کہا کہ 20 لاکھ سے زیادہ گھر، 14,000 کلومیٹر سڑکیں اور 23,000 سکول اور کلینک تباہ ہو چکے ہیں۔  عالمی بینک اور یورپی یونین کے تعاون سے کیے گئے آفات کے بعد کی ضرورتوں کے تخمینہ سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں جو کہ پاکستان کی کل جی ڈی پی کے 10ویں حصہ کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اکیلا اس چیلنج سے نہیں نمٹ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور میں 9 جنوری کو جنیوا میں کلائمیٹ ریزیلیئنٹ پاکستان انٹرنیشنل کانفرنس کی مشترکہ میزبانی کر رہے ہیں۔ کانفرنس میں عالمی رہنما، بین الاقوامی اداروں اور انسانی ہمدردی کی تنظیموں کے نمائندے اور پاکستان کے دوست اس کے ساتھ  تعاون  اور یکجہتی کا اظہار کریں گے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم سیلاب کے بعد کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے ایک جامع روڈ میپ بھی پیش کریں گے، جسے ورلڈ بینک، اقوام متحدہ، ایشیائی ترقیاتی بینک اور یورپی یونین کے تعاون سے تیار کیا گیا ہے۔  متاثرہ علاقوں میں  بحالی اور تعمیر نو کے فوری چیلنجوں سے نمٹنے   کے لئے تین سال کی مدت میں کم از کم 16.3 بلین ڈالر کی فنڈنگ کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پاکستان آدھی رقم اپنے وسائل سے پورا کرے گا لیکن  اس فرق کو پورا کرنے کے لئے  ہمیں اپنے دوطرفہ اور کثیر جہتی شراکت داروں کی مسلسل معاونت درکار ہو گی۔ شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی لچک پیدا کرنے کے لئے طویل المدتی وژن کے تحت  10 سال کی مدت میں 13.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔  بہتر مواصلاتی انفراسٹرکچر اور آبپاشی کے زیادہ مضبوط نظام کی تعمیر، اور مستقبل کی قدرتی آفات کے اثرات کو کم کرنے کے لیے موثر ابتدائی انتباہی نظام کو ڈیزائن کرنا پاکستان کے لئے اب ایک لازمی امر ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنیوا کانفرنس ایک طویل اور مشکل سفر کا آغاز ہے، اس سے لاکھوں متاثرین کو یقین ملے گا کہ انہیں فراموش نہیں کیا گیا اور عالمی برادری ان کی بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں میں مدد کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب فطرت کی قوتوں کے رحم و کرم پر ہیں جو سرحدوں کا لحاظ نہیں کرتیں اور ہم صرف مشترکہ کوششوں سے ہی ان مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ امید ہے کہ جنیوا کانفرنس ہماری مشترکہ انسانیت اور سخاوت کے جذبے کی علامت اور ان تمام لوگوں اور ممالک کیلئے امید کا ذریعہ بنے گی جنہیں مستقبل میں قدرتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ  سکتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن