بھارت کا دوغلا چہرہ
بھارت جہاں ایک جانب دنیا میں امن کا پرچارک بنتا ہے تو دوسری جانب اس کے افعال ایسے ہیں جو اس کے قول سے میل نہیں کھاتے یعنی آسان الفاظ میں بات کریں تو بھارت کے قول و فعل میں تصاد ات ہیں اور ہندو بنیے کی سوچ ہے کہ منہ میں رام رام اور بغل میں چھری والا فارمولا اپنایا جائے تا کہ دنیا کو لگے کہ بھارت ایک بڑا پر امن ملک ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 28 اکتوبر 2022ء کو ووٹنگ ہوئی جس میں اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ اپنے غیر قانونی جوہری ہتھیاروں سے چھٹکارا حاصل کرے۔ قرارداد الجزائر، بحرین، کوموروس، جبوتی، مصر (عرب لیگ کی جانب سے)، عراق، اردن، کویت، لبنان، لیبیا، موریطانیہ، مراکش، عمان، قطر، سعودی عرب، صومالیہ، سوڈان، تیونس نے پیش کی تھی۔ متحدہ عرب امارات، یمن، اور اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ ریاست فلسطین نے بھی اس قرار داد کی حمایت کی۔ پاکستان سمیت زیادہ تر ممالک نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے جوہری ہتھیار رکھنے پر اسرائیلی نسل پرست حکومت کی مذمت کیلئے ووٹ دیا۔
اس قرار داد پر 152ممالک نے ووٹنگ میں حصہ لیا جو پوری دنیاکا 79 فیصد بنتے ہیں۔ ان ممالک نے ایک قرارداد بھی منظور کی جس میں اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ اپنے ایٹم بم چھوڑ دے، عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں شامل ہو اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کو اپنی جوہری تنصیبات کی نگرانی کرنے کی اجازت دے تاہم 5 ممالک امریکہ اور کینیڈا، جمہوریہ پلاؤ، مائیکرونیشیا اور اسرائیل نے اس اقدام کے خلاف ووٹ دیا۔ ووٹنگ کے عمل میں 24 ممالک نے حصہ نہیں لیا جن میں بھارت کے علاوہ زیادہ تر یورپی یونین کے ممالک اور نیٹو اتحادی تھے۔قرار داد میں اسرائیل سے کہا گیا کہ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کی پاسداری کرے اور اپنی تمام جوہری تنصیبات کو آئی اے ای اے کے تحفظات کے تحت رکھے۔
اگر ہم تھوڑا ماضی میں جائیں تو 2019ء میں امریکہ اور نسل پرست اسرائیل دنیا میں دو ایسے ممالک تھے جنھوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ان قراردادوں کے خلاف ووٹ دیا جن میں جوہری ہتھیاروں سے پاک مشرق وسطیٰ کے قیام، خلا میں ہتھیاروں کی دوڑ کو روکنے اور کیوبا کی ساٹھ سالہ ناکہ بندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ دوسری جانب بھارت کے رویے کا ہم جائزہ لیں تو وہ اس قرار داد سے ویسے ہی غیر حاضر رہا تا کہ اسرائیل سے تعلقات خراب نہ ہوں اور عرب ممالک بھی راضی رہیں کہ بھارت اسرائیل کے حق میں نہیں گیا، یعنی بھارت نے غیر حاضر رہ کر ایک تیر سے دو نشانے لگانے کی کوشش کی لیکن بھارت کا یہ کردار دنیا پر واضح ہو چکا ہے کہ وہ اسرائیل کی جارحیت کا حامی اور مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی حربے آزما رہا ہے تا کہ مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کو بھی ویسی ہی تکلیف دہ صورتحال سے دوچار کرے جس سے اس وقت غزہ کے باسی گزر رہے ہیں۔
حال ہی میں دوبارہ 2023ء کے آغاز میں اسرائیلی انتہا پسند وزیر کی جانب سے مسجد اقصیٰ کا زبردستی دورہ کرنے بھی اقوام متحدہ میں قرار داد پیش کی گئی۔ فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی گئی۔ روس، چین، پاکستان، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور دیگر مسلم ممالک قرارداد کے حق میں تھے۔قرارداد کے حق میں 87 اور مخالفت میں 26 ووٹ آئے جبکہ 53 ممالک ووٹنگ سے غیر حاضر رہے۔غیر حاضر رہنے والے ممالک میں بھارت بھی شامل تھا جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بھارت کا عالمی امن میں کردار اب مشکوک ہو گیا ہے جو ایک جانب تو دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ بھارت عالمی تنازعات میں نہیں پڑنا چاہتا اور دوسری جانب اسرائیل جیسے جارح مزاج ملک کے خلا ف بھی جانا نہیں چاہتا۔
یہ اسرائیل کی ہی پیروی ہے کہ بھارت اس وقت مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کو ایک کھلی جیل میں رہنے پر مجبور کر رہا ہے اور وہیں دوسری جانب ایک عدالتی حکم کو جواز بنا کر اترا کھنڈ میں ہزاروں مسلمانوں کو بے گھر کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ پچاس ہزار سے زائد مسلمان آبادی کو بے گھر کرنے کیلئے بلڈوزر پہنچا دیے گئے ہیں اور ہندوتوا کی سوچ کے تحت انھیں انکے گھروں سے نکالا جا رہا ہے تا کہ بھارت کو ایک فاشسٹ ہندو ریاست بنا یا جائے۔ عالمی دنیا کو بھی بھارت کی اس دو رخی کا نوٹس لینا چاہیے کہ وہ ایک جانب تو اپنے ہاں اقلیتوں پر مظالم ڈھا رہا ہے تو دوسری جانب وہ عالمی امن کو تباہ کرنے کیلئے جوہری ہتھیاروں کو پروان چڑھا رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بھارت کی جانب سے پاکستان کی حدود میں میزائل گرائے جانے والا واقعہ بھی ایک سوچی سمجھی سازش تھا جو ظاہر کرتا ہے کہ بھارت کے ایٹمی ہتھیار بھی محفوظ نہیں ہیں جس کیلئے عالمی اداروں کو نوٹس لینا چاہیے اور بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں کی جانچ کرنی چاہیے تاکہ پتا چل سکے کہ بھارت کے جوہری ہتھیار کہیں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھ میں تو نہیں لگ چکے کیونکہ بھارت کی جانب سے ایک چنگاری پورے خطے کے امن کو تباہ کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔