پاکستان کی قومی سلامتی
قومی سلامتی کمیٹی میں پاکستان کو درپیش چیلنجز کا بغور جائزہ لیتے ہوئے بالخصوص دہشت گردی اور مالیاتی بحران سے نبٹنے کیلئے عزم کا اظہار کیا گیا۔ دہشت گردی کی جنگ سے نبٹنے کیلئے ہماری عسکری قوتیں جانبازی سے دہشت گردوں کا قلع قمع کر رہی ہیں۔ لیکن مالیاتی بحران سے نبٹنے کیلئے کسی راہِ عمل کا تعین کرنا مشکل بنا ہوا ہے۔ اس موقع پر عالمی مالیاتی جادوگروں کے ٹولے پھر سے سرگرم ہو گئے ہیں ۔عالمی اداروں سے تعلق رکھنے والے ماہرینِ معاشیات نے ببانگِ دہل کہہ دیا کہ معاشی بحران سے نبٹنے کیلئے سخت اقدامات کی ضرورت ہے جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی کسی بھی حکومت کیلئے ممکن نہیں ہو سکتا چنانچہ دو سال کیلئے ٹیکنوکریٹ حکومت کے بھی شوشے بلند ہونے لگے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کن منصوبوں کی تکمیل پر کام کرکے پاکستان کو معاشی بحران سے نکالا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان کی جامع ترقی میں جمود نظر آتا ہے۔ صرف ایوب خان کے دور حکومت کو معاشی استحکام کا دور بھی کہا جاتا ہے۔اسکی وجہ پاکستان کی معیشت کی بنیاد زراعت کی بہتری کیلئے اقدامات کیے گئے۔ پاکستان کی بنجر زمینوں کی آبادکاری کیلئے بڑے ڈیم منگلا اور تربیلا ہی نہیں بنائے گئے بلکہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کیلئے نئے بیج اور کھاد وغیرہ کیلئے بھی پلاننگ کی گئی۔ منگلا تربیلا ڈیموں کی تعمیر کوئی عالمی مالیاتی اداروں کی پاکستان محبت نہ تھی بلکہ پاکستان کے تین مشرقی دریاؤں کا 21ملین ایکڑ فٹ پانی ہڑپنا تھا۔ دونوں بڑے ڈیموں کی تعمیر سے پاکستان کی سبز معیشت کیلئے پانی اور بجلی کی توانائی میسر آئی تو قومی معیشت نے بھرپور انگڑائی لی۔ دنیا کے ماہرینِ معاشیات پاکستان کو مستقبل کا ایشین ٹائیگر قرار دے رہے تھے۔ تربیلا ڈیم کے مکمل ہوتے ہی اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے لیے حکم دیا چنانچہ تربیلا ڈیم سے کنسٹرکشن مشینری فوری طور پر کالاباغ کے مقام پر پہنچا دی گئی۔ اگر کالاباغ ڈیم کی تعمیر بھی بروقت ہو جاتی تو پاکستان کو ایشین ٹائیگر بننے سے کوئی نہ روک سکتا تھا۔ پاکستان کی تیزرفتار ترقی دنیا کی بڑی سامراجی طاقتوں کیلئے کسی طور قابلِ قبول نہ تھی۔ ترقی کی اس رفتار کو روکنے کیلئے اپنے وظیفہ خواروں کے ذریعے رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔ سبز معیشت کے حامل پاکستان میں آبی وسائل کو ہی شجرِ ممنوعہ بنا دیا گیا۔ کالاباغ ڈیم سمیت تمام آبی وسائل پر گویا خطِ تنسیخ کھینچ دی گئی۔ تربیلا ڈیم پراجیکٹ میں پانچ سرنگوں (Tunnels) کے ذریعے بجلی پیدا کی جانی تھی مگر صرف پہلی سرنگ پر ایک ہزار میگاواٹ کے جنریٹرز نے کام شروع کیا تھا کہ عالمی بینک کی طرف سے قرض لینے کے شوقین حکام نے فرنس آئل پر چلنے والے 1292 میگاواٹ کے جبکو پاور ہاؤس کو بھی شرف قبولیت بخشا۔ اسکے چھ سال بعد تھوک کے حساب سے پرائیویٹ بجلی گھروں نے پہلے واپڈا کو ذبح کیا اور پھر پاکستان کی معیشت کا ہی نہیں عزت وآبرو کا بھی جنازہ نکال دیا۔
عالمی مافیا کی پروپیگنڈا مہم نے حکمرانوں کے دلوں میں بلاوجہ سا خوف پیدا کیا کہ اتفاقِ رائے کے بغیر کوئی منصوبہ مکمل نہیں کرنا۔ بلاشبہ اتفاقِ رائے نہایت اچھی بات ہے لیکن اگر ہٹ دھرمی اور غیروں کے اشاروں پر قومی وسائل سے پہلو تہی کی جائے تو اتفاقِ رائے کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ اگر ڈھٹائی کے ساتھ کوے کو سفید کہا جائے تو بھی سفید نہیں بن سکتا۔ ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آبی وسائل کی مخالفت کرنے والے کن کے اشاروں پر مخالفت کر رہے ہیں۔ گریٹر بلوچستان، جئے سندھ اور پختونستان کی آوازیں بھی پاکستان میں ہی سنائی دیتی ہیں لیکن ان نعروں پر اس لیے کان نہیں دھرے جاتے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ نعرے پاکستان مخالفت میں لگائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کو پسماندگی اور غربت کے جال میں جکڑنے کیلئے نعرے کون لگا رہے ہیں؟ ان نعروں کی بھی بیخ کنی کی انتہائی ضرورت ہے۔
پاکستان میں تقریباً 150 ارب یونٹ سالانہ پیدا کیے جا رہے ہیں۔ اسکی اوسطاً فی یونٹ پیداواری لاگت 13 سینٹ آتی ہے۔ان میں سے آبی وسائل سے 39 ارب یونٹ صرف 2.74روپے فی یونٹ کی لاگت سے پیدا کیے جا رہے ہیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 3600میگاواٹ کے کالاباغ ڈیم بننے سے پاکستان کو سالانہ 20 ملین بیرل تیل سے نجات ملتی بلکہ سستی بجلی بھی میسر آتی اور بنجر رقبے بھی آباد ہوتے۔ اگر پاکستان کے مقتدر حلقوں نے اتفاقِ رائے کی شتونگڑی کا پوسٹ مارٹم کیا ہوتا تو آبی وسائل کے مخالفت کب کی ختم ہو چکی ہوتی اور قوم کو سستی ترین بجلی صرف چند روپے فی یونٹ میں دستیاب ہوتی۔ یاد رکھیں، آبی منصوبوں سے سستی بجلی تو محض بائی پراڈکٹ ہے، اس سے تمام صوبوں کی پیاسی بنجر زمینوں کو بھی آبِ حیات ملتا جس سے غذائی قلت کا بھی وجود نہ رہتا۔ اب بھی وقت ہے کہ قوم کے مفاد میں درست فیصلے کیے جائیں۔ قدرتی و آبی وسائل سے بھرپور استفادہ کرنے کیلئے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پلاننگ کی جائے۔ پاکستان کے وسائل میں اتنا دم ہے کہ ہم اسی سال آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔ قرضوں کی معیشت میں ڈوبے رہنے سے کبھی سرخروئی نہیں ملتی۔ قرض دینے والے اداروں کے ایجنڈے پر عمل کرکے کبھی نجات نہیں مل سکتی ہے۔