انتہا پسندی اور پڑوسی ممالک
داعش خراسان اور اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی جانے والی کالعدم اورانتہا پسندتنظیموں کی موجودگی سے بین الاقوامی برادری کو افغانستان میں مستقل امن کی غیر یقینی صورتحال پر تشویش لاحق ہے لیکن مسئلہ بنیادی طور پر یہ ہے کہ افغان طالبان خود ماضی میں ایک انتہا پسند تنظیم کے طور پر غیر ملکی افواج اور افغان سیکورٹی فورسز کے خلاف سخت گیر رہے ہیں، وہ داعش خراسان کے حملوں کو روکنے میں ناکامی کا شکار ہیں۔ افغانستا ن کو عالمی برادری نے بھی ابھی تک تسلیم نہیں کیا کیونکہ شدت پسندی کے بڑھتے واقعات کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ رہے ہیں، لہٰذا ان میں سے اعتدال پسند اور جامع حکمرانی کا تصور بھی نہیں آرہا اور گمان یہی کیا جارہا ہے کہ افغان طالبان امریکہ کے خلاف مسلح مزاحمت میں ساتھ دینے والی تنظیموں سے مکمل طور پر لاتعلق ہونے کیلئے سنجیدہ نظر نہیں آرہے۔
افغانستان میں داعش خراسان کے مضبوط ہونے کے شواہد سامنے آرہے ہیں۔ امریکی حکام کے مطابق، افغانستان کے دارالحکومت کابل کے گیسٹ ہاؤس پر داعش کے حالیہ حملے کے بعدیہ دہشت گرد گروہ مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھرتی کر رہا ہے جو پڑوسی ممالک کی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں۔ امریکی حکام کے مطابق، افغانستان میں داعش خراسان ایک کثیرالنسل دہشت گرد نیٹ ورک بن چکی ہے اور وہ اپنی زیادہ تر بھرتیاں افغانستان سے ہی کرتی ہے۔ اس خطرے سے نمٹنے کیلئے افغان طالبان کو مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ سابق افغان فوجی اور انٹیلی جنس فورسز کے اہلکار طالبان کے خلاف داعش کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اسلامک اسٹیٹ خراسان امریکہ کی جانب سے افغانستان اور عراق میں شروع کی گئی انسداد دہشت گردی کی دو جنگوں کی پیداوار ہے، یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں القاعدہ تنظیم نے افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ کے پیشرو، ایک اور مقدس جنگ کی تنظیم کا اقرار کریں، کے مفروضے پر تشکیل کی، اور پھر عراق میں القاعدہ، اسلامک اسٹیٹ آف عراق اور اسلامک اسٹیٹ کی عراقی شاخ میں تبدیل ہوگئی، اور اسلامک اسٹیٹ نے مایوس ہونے کے بعد افغانستان کا رخ کیا جہاں آئی ایس خراسان کے نام سے ان کی شناخت کی جاتی ہے جو افغانستان او ر پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے۔
داعش خراسان کے ساتھ اتحاد کرنے والے کالعدم تنظیمیں پاکستان میں سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کیلئے افغانستان کی سرزمین استعمال کررہی ہیں اور افغان طالبان ان کالعدم تنظیموں کو روکنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ کالعدم جماعتوں کے اقدامات کو پاکستان کا داخلی معاملہ قرار دے کر خود کو غیر جانبدارنہ قرار دینے کے خود ساختہ مفروضے نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بھی متاثر کرنا شروع کیا اور اب تو افغان بارڈر فورسز نے بھی سرحد پار سے حملے اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ القاعدہ سے لے کر آئی ایس خراسان تک کابنیادی تاریخی سیاق و سباق یہ ہے کہ مبینہ طور پر 1999ء میں داعش کے بانی زرقاوی نے افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر القا عدہ کے رہنما اسامہ بن لادن سے منحرف ہو کر افغانستان اور ایران کی سرحد پرعسکریت پسندوں کیلئے ایک تربیتی کیمپ قائم کیا۔2001ء میں نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغان جنگ شروع کر دی جس سے بچنے کیلئے 2002ء میں شدت پسند افغانستان چھوڑ کر عراق منتقل ہوگئے اور 2004ء میں القا عدہ کی عراقی شاخ قائم ہوئی۔ عراق جنگ کے آغاز کو زرقاوی نے( نام نہاد ) ’خلافت‘ اور 2006ء میں داعش عراق قائم کی۔ امریکہ اور عراقی حکومت کے کریک ڈاؤن کے تحت ایک زمانے میں دولت اسلامیہ عراق معدوم ہونے کے دہانے پر تھی لیکن 2011ء میں عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء اور شام کی خانہ جنگی کے پھوٹ پڑگئی جس کا فائدہ داعش نے اٹھایا اور 2014ء میں دولت اسلامیہ عراق اور بعدازاں ( نام نہاد ) اسلامی ریاست خراسان شاخ کے قیام کا خیال پیش کیا گیا۔ 2015ء کے بعد سے صوبہ خراسان کی دولت اسلامیہ ( داعش) کو افغانستان میں مضبوط ہونے میں ناکامیوں اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 2021ء میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے ساتھ ہی آئی ایس خراسان ،افغان طالبان کو در پیش کانٹے دار ترین مسائل میں سے ایک بنتی جا رہی ہے۔
افغانستان میں دولت اسلامیہ کے بانی عبدالرؤف علیزہ، جنھیں ملا عبدالرؤف خادم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، طالبان کے سابق رکن اور گوانتانامو جیل میں قیدی تھے۔ داعش میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد علیزہ نے داعش میں شمولیت کیلئے طالبان کے ارکان کو بھرتی کرنا شروع کیا۔2015ء کے اواخر میں داعش نے صوبہ ننگرہار میں وائس آف دی خلافت کے نام سے ایک ریڈیو اسٹیشن قائم کیا تھا، جو مقامی آبادی کو روزانہ کا مواد نشر کرتا ہے، جیسے لوگوں کو داعش میں شامل ہونے اور خلافت قائم کرنے کا مطالبہ،لہٰذا ( نام نہاد ) اسلامک اسٹیٹ نظریات، اہلکاروں کی بھرتی، اثر و رسوخ کے دائرہ کار، مواد اور املاک کے لحاظ سے افغان طالبان کیلئے ایک سنگین خطرہ ہے۔
داعش خراسان شاخ نے2015ء کے آخر تک ننگرہار صوبے میں اپنی موجودگی کو مسلسل بڑھاتے چلے گئے اور افغانستان کے 34 صوبوں میں سے 25 میں ممبروں کو بھرتی کرنا شروع کردیا۔ آئی ایس خراسان کے ارکان بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہیں، ایک بیرون ملک سے مسلح اہلکار ہیں اور دوسرا افغانستان کے اندر سے ہے۔ آئی ایس خراسان شاخ کے غیر ملکی ارکان میں نہ صرف عراقی اور شامی بلکہ تاجک، ازبک، چیچن، یورپی، عرب اور افریقی بھی شامل ہیں۔ جہاں تک آئی ایس خراسان کے اہلکاروں کی تعداد کا تعلق ہے تو مغربی طاقتوں اور روسی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مطابق ان کی تعداد 10 ہزار تک ہے اوریہ حقیقت ہے کہ ان کے پاس ہزاروں مسلح اہلکار موجود ہیں ۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، وسط ایشیا، شمالی قفقاز اور پاکستان سے 8 ہزارسے 10 ہزارکے درمیان انتہا پسند افغانستان میں داخل ہوئے جن میں سے کچھ کا تعلق القاعدہ یا ٹی ٹی پی سے ہے جبکہ دیگر داعش خراسان شاخ کی حمایت کو ترجیح دیتے ہیں۔ خطے میں تیزی سے بڑھتی انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور افغانستان کو درپیش مشکلات صرف باہمی اتحاد و تعاون سے ہی دور کی جاسکتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فروعی اور چھوٹے اختلافات کو ایک جانب رکھتے ہوئے داعش خراسان شاخ کی سرگرمیوں کو مزید بڑھنے سے روکا جائے۔