• news
  • image

جنگل نامہ‘ جانور نامہ


تین چار دن پہلے اسلام آباد سے خبر آئی کہ کسی کار والے نے سڑک پار کرنے والے بوربچے کو کچل ڈالا۔ بے چارہ بوربچہ Leoperd موقع پر ہی دم توڑ گیا اور پھر دو تین دن پہلے راجستھان کا بارڈر عبور کرکے ایک چیتا تھرپارکر میں آ گیا جہاں دیہاتیوں نے اسے لاٹھیاں مار مار کر ہلاک کر ڈالا۔ یہ دونوں جانور پاکستان کے محدود شمالی علاقے میں پائے جاتے ہیں‘ لیکن اتنی کم تعداد میں کہ انہیں بآسانی کم یاب کے بجائے نایاب کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ان جانوروں کے تحفظ کی ضرورت ہے‘ لیکن اس ضرورت کو ہر حکومت نے غیر ضروری ہی سمجھا۔ نتیجہ جنگلی حیات کم سے کم ہوئی اور ساتھ ہی جنگلات بھی سکڑتے جا رہے ہیں۔
اور یہ خبر کل کی ہے۔ ہمارے باشعور طبقے کی مہربانی ہے کہ یہ خبر کسی ایک بھی اخبار کی سرخیوں میں نہیں آسکی۔ البتہ خبرکے ’’بقیہ‘‘ میں جو اندرونی صفحات پر دیا جاتا ہے‘ موجود ہے۔ خبر پنجاب کابینہ کی کمیٹی کے اجلاس کی ہے جس میں یہ اجازت دی گئی کہ پنجاب کے جنگلوں میں موجود ہرن ’’پاڑے‘‘ بارہ سنگے‘ ’’چنکارہ‘‘ نیل گائے اور اڑیال کا شکار اب سارا سال ہو سکے گا۔ شکاری جب چاہے ان کا قتل عام کر سکیں گے اور کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ بس ہنس دو اور بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگو۔ اس فیصلے پر کم ہی داد مل سکے گی کیونکہ تنقید کی گنجائش کم ہی ہے کیونکہ معاملہ سرخی‘ پٹی میں جو آیا نہیں۔ محض اندر چھپنے والے بقیے میں آیا ہے اور بقیے پڑھتا کون ہے؟
…………

جنگی حیات کے تحفظ کی بڑی وجہ تو ماحولیاتی ضرورت ہے۔ اس میں ہمدردی کا کوئی دخل نہیں‘ لیکن جو ’’انسان‘‘ ہوتے ہیں یا جن کی انسانیت جزوقتی جاگ جایا کرتی ہے‘ ان کیلئے معاملہ ہمدردی کا بھی ہے اور اسی لئے ہر مذہب نے کسی جائز وجہ کے بغیر جانور مارنے کو منع کیا ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ ’’الانعام‘‘ میں خدا تعالیٰ انسانوں کو متنبہ فرماتے ہیں کہ جملہ حیوانات اور پرندوں (کی ہر نوع) تمہاری ہی نوع کی طرح‘ بالکل ایک امت ہیں اور ان سب کا ماجراہم نے ایک رجسٹر پر درج کر رکھا ہے اور یہ سب بھی اپنے رب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (آیت: 38)
ماضی کے ایک بہت مشہور شکاری اور بڑے رئیس نواب سر حافظ محمد احمد خان نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ایک بار انہوں نے جنگل میں سڑک پار کرنے والے کالے ہرن کو گولی مار دی اور ذبح کرنے کیلئے اس کے پاس پہنچا تو ہرن نے نظر اٹھا کے مجھے دیکھا۔ ان کے الفاظ ہیں کہ کیا کہوں‘ ان خاموش نگاہوں نے مجھے کیا کہا۔ مجھے خوف سے زیادہ ملامت محسوس ہوئی اور قرآن کی وہ آیت یاد آئی کہ ’’مجھے کس گناہ کی پاداش میں قتل کیا گیا۔‘‘ اس واقعے کے بعد میں نے شکار سے توبہ کر لی۔
 دلچسپ اتفاق ہے کہ ہو بہو ایسا ہی ماجرا پنجاب کے مشہور (مسلمانوں کے نزدیک بدنام) کردار بندہ پیر الٰہی کے ساتھ بھی ہوا یعنی سکھوں کے آخری گورنر کا نامزد کردہ دیو عرف بندہ سنگھ بہادر عرف بندہ بیراکی۔ یہ بہت بے رحم شکاری تھا۔ جنگلوں میں گھس کر بے دریغ جانور مارتا تھا۔ ایک دن اس نے ہرنی ماری اور پھر  لپک کر اس کے پاس پہنچا۔ اسے ذبح کرنے لگا کہ ہرنی نے ایسی نظر سے دیکھا کہ اس کے ہاتھ کانپ گئے۔ بہرحال اس نے ذبح کیا تو اس کے پیٹ سے بچے نکلے۔ وہ کھڑا کچھ دیر کانپتا اور لرزتا رہا‘ پھر شکار سے توبہ کر لی اور توبہ ہی نہیں کی‘ بیراک لے لیا۔ دنیا ہی ترک کر دی۔
لیکن اندر کا ’’ڈی این اے‘‘ حرکت میں آ یا اور فوج بنا کر مسلمان بستیوں پر چڑھ دوڑا۔ مسلمانوں کا وسیع پیمانے پر قتل کیا‘ خیر یہ الگ کہانی ہے۔
…………
شکاریوں کے ہاتھوں مرنے والا ہر جانور اسی طرح کی نظروں سے قاتل کو دیکھا کرتا ہے‘ لیکن شکاری بالعموم ان نظروں کو دیکھتے ہی نہیں۔ دیکھتے ہیں تو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ کوئی انسان کیا محسوس کرتا ہے جب اسے کوئی ذبح کر دے؟ جانور بھی بالکل ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔ جانور کو اپنے بچوں سے اور ان بچوں کو اپنی مائوں سے ویسی ہی محبت ہوتی ہے جیسی انسانوں کو اور ان کے بچوں کو ایک دوسرے سے۔ انہیں بھی خوف‘ ڈر‘ دکھ اور خوشی ‘ امید‘ آس کا ویسا ہی سامنا ہوتا ہے جیسا انسان کو‘ لیکن انسان جانوروں کو بالعموم‘ گاجر مولی کی قبیل کی طرح اشیائے خوردنی سمجھتے ہیں جو دلیل ہے اس بات کی کہ لاکھوں قسم کی انواع حیوانی میں واحد نوع انسان کی ہے جسے خدا نے ’جہول‘‘ پیدا کیا۔
…………
جس شکار کی اجازت نہیں ہوتی‘ محکمے کے بے ایمان افسروں سے مل کر شکاری تب بھی بے دریغ شکار کرتے ہیں۔ سندھ میں خاص طور سے پردیسی پرندوں کا جو قتل عام ہوتا ہے اور کہیں نہیں ہوتا۔
بھارت کا محکمہ جنگلات بھی کچھ ایسا ہی کر چکا تھا‘ لیکن پھر سرکار نے سخت قانون بنائے چوکسی بڑھائی‘ بھارتی میڈیا‘ وہاں کے جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرنیوالی تنظیمو ںنے بھرپورمہم چلائی اور آج بھارت کے جانور  تین چار عشرے کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہیں۔
ٰآزادی کے بعد بھارت میں بھی نئی تعمیرات اور بستیاں آباد کرنے کے نام پر جنگلات کی کٹائی ہوئی لیکن پھر شعو رجاگا۔ جنگلات محفوظ ہی نہیں کئے گئے بلکہ ان کی بحالی بھی کی گئی۔ آج بھارت میں جنگلات کا رقبہ کل رقبے کا 26 فیصد ہے۔ یعنی ایک چوتھائی ملک جنگلات پر مشتمل ہے حالانکہ بھارت ہم سے کہیں زیادہ گنجان آباد ہے۔ ایسے کہ بھارت کا رقبہ ہم سے چار گنا لیکن آبادی سات گنا زیادہ ہے۔ کم آبادی کے باوجود پاکستان میں جنگلات کا رقبہ پانچ فیصد بھی نہیں۔ محض ساڑھے چار فیصد یا اس سے کچھ ہی زیادہ۔
اور پچھلے چار برسوں میں خاص طور سے پختونخواہ میں جنگلات کی بے مہابا‘ بے روک ٹوک بلکہ برسراقتدار جماعت کی سرپرستی میںجو کٹائی ہوئی ہے‘ اس کا تو پوچھیئے ہی مت اور اس سارے عرصے میں جنگلات میں آگ لگنے کے مسلسل اور پراسرار واقعات الگ۔ (مزید پراسرار ماجرا ہے کہ گزشتہ اپریل سے‘ حکومت کی تبدیلی کے بعد سے پراسرار آتشزدگی کے واقعات یک لخت جیسے تھم سے گئے) اب تو یہ رقبہ اور بھی کم ہو گیا ہوگا۔
بھارت میں اتنے جنگل ہیں کہ مشرقی پنجاب (اور آدھے راجستھان) کے علاوہ کسی بھی صوبے میں چلے جائیں‘ کسی بھی شہر‘ قصبے یا گائوں سے باہر نکلتے ہی جنگلات یا نیم جنگلی علاقے شروع ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں لوگوں کو جنگل دیکھنے کیلئے دور دراز کا سفر کرنا پڑتا ہے۔
جنگل اور جانور ماحولیات کیلئے ویسے ہی ہیں جیسے جینے کیلئے سانس لینا۔ جانوروں سے ہمدردی خدا کاحکم ہے۔جانور کو اذیت دیکر مارنے والے کیلئے جہنم ہے چاہے مارنے والا نمازی ہی کیوں نہ ہو اور جانور کی جان بچانے والے کیلئے جنت ہے چاہے وہ گناہ گار ہی کیو ںنہ ہو۔ دونوں پہلو اہم ہیں ا ور اتفاق دیکھئے پاکستان کی سرکار اور پاکستان کے عوام ان دونوں پہلوئوں سے یکساں لاعلم ہیں۔ کوئی توجہ دلائے تو لوگ اسے حیران ہوکر دیکھنے لگتے ہی کہ بے چارے کا دماغ چل گیا ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن