اتوار،15 جمادی الثانی 1444ھ، 8 جنوری 2023ئ
سنسنی خیز مقابلے کے بعد پاکستان کراچی ٹیسٹ ڈرا کرنے میں کامیاب
شکر ہے ہماری کرکٹ ٹیم کی عزت رہ گئی۔ ورنہ کہاں ہمارے افلاطونی دعوے اور کہاں ہماری مایوس کن کارکردگی۔ بڑے بڑے نامور کھلاڑی جن کو ہم رستم و سہراب سمجھتے ہیں‘ نجانے کیوں ٹیسٹ سیریز میں مٹی کے مادھو ثابت ہوئے ہیں۔ ان کی کارکردگی دیکھ کر تو لگتا ہی نہیں یہ ہمارے رستم زماں ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے سہمے ہوئے نوآموز کھلاڑی ہیں یا زیادہ خوداعتمادی کا شکار اناڑی جو بنا سوچے سمجھے گیند کھیل کر آبیل مجھے مار کے مصداق آﺅٹ ہوتے ہیں۔ اب تو قدرت کی مہربانی ہے کہ وہ ہمارے کھلاڑیوں کی لاج رکھ رہی ہے اور یوں کراچی میں پاکستان نے ایک زبردست مقابلے کے بعد قدرت کی مہربانی سے ہارا ہوا میچ ڈرایعنی برابر ہی ختم کر دیا۔ ورنہ کھیل تو مکمل ہمارے ہاتھ سے نکلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ نیوزی لینڈ کے کھلاڑی بھی فتح کیلئے پرجوش تھے مگر سرفراز احمد نے 118 رنز بنا کر حوصلہ ہارتی اپنی ٹیم کو شکست کی شرمندگی سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ محسوس ہوتا ہے ہماری کرکٹ ٹیم کا مزاج ابھی تک ٹیسٹ سیریز والا نہیں بنا۔ وہ ابھی تک ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کے سحر میں جکڑی ہوئی ہے۔اس خامی پر امید ہے ہماری نئی کرکٹ انتظامیہ ضرور توجہ دے گی اور اس خامی پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کرے گی کیونکہ کرکٹ صرف ٹی ٹونٹی یا ون ڈے کرکٹ کا نام نہیں۔
٭٭........٭٭
پاکستان کے ارکان اسمبلی کی دولت میں 85 فیصد اضافہ ہوا ہے: رپورٹ
یہ تو کوئی انوکھی نئی کہانی نہیں۔وہی پرانی طوطا مینا والی یا جنوں اور پریوں جیسی کہانی ہے جو بار بار سن کر بچوں کو ازبر ہوجاتی ہے اور پھر بڑھاپے تک ذہن سے محو نہیں ہوتی۔ نسل در نسل ہم یہی کہانیاں سنتے اور پڑھتے چلے آرہے ہیں۔ قیام پاکستان سے لیکر آج تک کوئی بھی حکومت ہو اسٹیبلشمنٹ‘ حکمرانوں اور اشرفیہ کے لوٹ مار کے یہی قصے رنگ روپ بدل کر نئے کرداروںکے ساتھ ہمارے سامنے آجاتے ہیں اور ہم سب یعنی عوام یہی کچھ سہتے رہتے ہیں۔ اب چونکہ کچھ کرنے کا حوصلہ ہم میں نہیں اس لئے صرف آہیں بھرتے ہیں اور یہ سنہری تکون قومی خزانہ خالی کرتی رہتی ہے۔ اس لوٹ مار میں جو چند سکے ان کے ہاتھ سے گر جاتے ہیں‘ وہ انہیں اٹھانے کی بجائے اسے عوام پر نثار کرتے ہیں۔ یوں اپنی دریا دلی کی داد بھی اسی بھوکی ننگی قوم سے پاتے ہیں جن کے خون پسینے کی کمائی وہ لوٹ لوٹ کر اپنی تجوریاں بھر رہے ہوتے ہیں۔ اب اخبارات میں شائع اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کے عوام غریب سے غریب تر ہوتے جارہے مگر ارکان اسمبلی کی دولت میں 85 فیصد ریکارڈاضافہ ہوا ہے اور اس بہتی گنگا میں کیا حکمران کیا اپوزیشن‘ ارکان اسمبلی سب نے ہاتھ دھوئے ہیں۔ اب غریب بے چارے یعنی عوام کو یہ لٹیرے یہی سبق پڑھائیںگے کہ یہ تو اللہ کی دین ہے۔ اس کی تقسیم پر شور نہیں کرنا چاہئے۔ اب کوئی جا کر قانون و انصاف کے ایوانوں میں تو جا کر آواز بلند کرے کہ صرف یہی کیوں رہ گئے جن کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام نے کیا گناہ کیا ہے کہ ان کے منہ سے روٹی کا نوالہ‘ تن سے کپڑے اور سر سے سائبان تک چھینا جا رہا ہے۔ آخر یہ برق گرتی ہے تو بے چارے غریبوں پر ہی کیوں۔
٭٭........٭٭
عمران خان کو سلو پوائزن دیکر مارنے کی کوشش کی جا رہی ہے: شیخ رشید
خدا جانے ایسی عجیب و غریب خبریں کون سے موکلات شیخ رشید کو لاکر دیتے ہیں لگتا ہے پہلے گیٹ نمبر 5 کے موکلات شیخ رشید کے کان بھرتے رہتے تھے۔ ان میں چند باتیں سچ ثابت ہوتی رہی ہیں جس کی وجہ سے شیخ جی خود کو عامل کامل سمجھنے لگے تھے۔ مگر دنیا کے دستور کے مطابق وقت بدلتا ہے۔ اس لئے شاعر نے کہا تھا ”مسکر اے میرے ہم نشیں ایک سا وقت رہتا نہیں“
یا پھر ”جہاں بجتی ہے شنہائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں“ ان باتوں کا مقصد یہی ہے کہ حالات بدلتے رہتے ہیں اس لئے انسان حواس باختہ ہونے کی بجائے برا وقت صبروتحمل سے گزرے۔ لیکن شیخ جی جو خود کو شاید ”دیو جانس کلبی“ سمجھتے ہیں۔ ابھی تک ادھر ادھر کی بے تکی باتوں کو اپنا وجدان یا پیشنگوئی قرار دیتے پھرتے ہیں۔ اب یہ نئی درفطنی ہی سن لیں کہہ رہے ہیں عمران خان کو سلو پوائزن دیکر مارا جا رہا ہے۔ خود یہ بات خان صاحب کی طرف سے سامنے آتی تو الگ بات تھی۔وہ تو اتنے محتاط ہیں کہ وزیرآباد میں زخمی ہوئے تو علاج کیلئے شوکت خانم ہسپتال لاہور آن کر دم لیا۔ اب بھلا اتنے محتاط شخص کو زہر کون دے سکتا ہے۔ کیا شیخ جی ان کے گھروالوں یا قریبی دوست احباب پر شک ظاہر کر رہے ہیں۔ خان صاحب کے اردگرد تو سکیورٹی کا جو مضبوط حصار ہے اس کو زہر تو کیا گڑ بھی ان تک پہنچنے سے پہلے چیکنگ کے سو مراحل سے گزرتا ہے۔ اس لئے شیخ رشید اپنی قدیم لال حویلی کی موکلات سے گن سن لینے کی بجائے اپنے دماغ شریف کو بھی حاضر رکھا کریں اور ایسی باتیں کرنے سے پرہیز کریں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا مگر ان کے افسانے بننے میں ذرا بھر دیر نہیںلگتی۔
٭٭........٭٭
وانا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خلاف مختلف تنظیموں اور جماعتوں کا احتجاج
سچ ہے جب پانی سر سے گزر جاتا ہے پھرہم جاگ پڑتے ہیں۔ کل تک جو لوگ وانا میں مسلح دہشت گردوں کے زیرسایہ سر جھکائے اف تک نہیں کرتے تھے‘ آ ج جب پاکستان کی مسلح افواج نے شمالی و جنوبی وزیرستان سوات اور وانا میں ان دہشت گردوں کا قلع قمع کیا۔ سینکڑوں جانوں کی قربانی دیکر اس علاقے کو پاک کرایا۔ یہاںامن قائم کرکے تعلیم‘صحت‘ سڑکوں کی تعمیر اور روزگار کی بحالی کا کام شروع کیا تو کونے کھدروں میں چھپے یہ نام نہاد اصلاح پسند انسانی حقوق قومیت کے نام پر پرزے نکالنے لگے۔ اب انہیں یہ دکھ لاحق ہو گیا کہ ان علاقوں کے عوام میں ہماری فوج کا امیج بہتر ہوا ہے۔ لوگ جان گئے ہیں فوج ہمارے جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہے۔ ان کو احساس ہوا کہ اب ان کی دال یہاں نہیں گلنے والی تو سکیورٹی فورسز کے خلاف شر انگیز مہم چلانے لگے تاکہ خود کو علاقے کا ماما اور انسانی حقوق کا علمبردار ثابت کیا جائے مگر قدرت خدا کی دیکھئے ابھی ان کی بدزبانی کی مہم جاری تھی کہ دہشت گرد اپنے سہولت کاروں کی مدد سے پھر ان علاقوںمیں دندناتے نظر آنے لگے اور ان سیاسی بازیگروں سے بھی بھتہ وصول کرنے کا کام شروع کر دیا۔ اس پر اب یہ پھر روتے پھر رہے ہیں کہ ہمیں بچاﺅ۔ دہشت گرد علاقے میں بدامنی پھیلا رہے ہیں۔ یہی لوگ کل تک اچھے اور برے طالبان میں تفریق کا کہہ رہے تھے۔ اب اچھے طالبان نے ان سب سے بلا تفریق اچھے برے یکساں سلوک شروع کر دیا ہے تو یہ تلملا اٹھے ہیں۔ اب کل تک یہ جن کے خلاف نعرے لگاتے تھے آج انہی سے اپنے درد کا درماں مانگ رہے ہیں۔ صوبے کی حکومت یا انتظامیہ کیا کر رہی ہے ۔ اس کا جواب بھی کوئی دے۔