اکبر الٰہ آبادی: ہمارے قومی امراض کا نباض (3)
سر سیّد احمد خاں نے قومی امراض کے علاج کے لیے تعلیم کا نسخہ تجویز کیا۔ وہ جانتے تھے کہ قومی امراض نہ تو اچانک شروع ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کا علاج چند دنوں میں کیا جا سکتا ہے۔ قوم کو تعلیم دینے کے لیے حالات کا جائزہ لینا ضروری تھا۔ بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ مغرب کی ہر چیز کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ خور و نوش سے آدابِ نشست و برخاست تک ہر چیز نجس سمجھی جاتی تھی لیکن عملی طور پر انگریزوں سے فاصلہ کم کیے بغیر کوئی چارہ¿ کار نہیں تھا۔ اس کے بغیر برطانوی حکومت مسلمانوں کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔ مسلمان کبھی جاگیروں کے مالک تھے۔ اب جاگیریں رہن رکھی جا چکی تھیں۔ کبھی اندرونی اور بیرونی تجارت اور کاروبار پر ان کا غلبہ تھا جو ملکی اور غیرملکی ابھرتی ہوئی طاقتوں کے قبضے میں آ چکے تھے۔ حکومت کے رخصت ہونے کے ساتھ چھوٹے بڑے شہر و ں اور دیہات کے مسلمان عمال بھی ختم ہو گئے تھے۔ عدلیہ اور دفتری کاموں میں جب تک فارسی کا چلن تھا ہندوو¿ں کے ساتھ مسلمان بھی برابر کے شریک تھے۔
1803ءتا 1856ءمسلمانوں کا تھوڑا بہت بھرم برقرار تھا مگر 1857ءکے بعد مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنانے کی پالیسی مکمل طور پر غالب آ گئی۔ جہاد کی کوششیں پہلے ہی ناکام ہو چکی تھیں۔ اندریں حالات سرسیّد نے انگریزوں سے مفاہمت کرکے جو تعلیمی نظام رائج کیا اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ کم از کم ایک ایسا متوسط طبقہ وجود میں آئے جو مناسب انتظامی عہدے حاصل کرے اور ہزاروں خاندان معاشی طور پر خوشحال ہو جائیں۔ سرسیّد کو خود بھی اس تعلیم کی خامیوں کا احساس تھا۔ وہ علی گڑھ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کی ضرورت محسوس کرتے تھے مگر اس کے لیے زیادہ سرمائے کی ضرورت تھی جو فراہم نہیں ہوسکتا تھا۔ جیسی تعلیم دی جا رہی تھی اس کے لیے سرسیّد نے جو جان توڑ کوششیں کیں وہ کوئی اور نہیں کر سکتا تھا مگر اعلیٰ علوم و فنون کے لیے سرمایہ کہاں سے آتا؟
سرسیّد اور ان کے ساتھیوں کا خیال یہ تھا کہ علی گڑھ سے تعلیم حاصل کرکے جو پہلی نسل پیدا ہو گی وہ آئندہ کے لیے بہتر تعلیمی ماحول پیدا کرے گی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ سر سیّد انیسویں صدی کے آخر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ اکبر نے بیسویں صدی کے ربعِ اوّل میں اس تعلیم کے منفی اثرات کو دیکھا اس لیے انھوں نے سرسیّد کی پالیسی پر تنقید کی تاہم وہ اپنی آخری عمر میں بعض بنیادی باتوں میں سرسیّد کی پالیسی سے اتفاق کرنے لگے تھے۔ مثلاً کانگریس نے کئی باتوں میں جو طرزِ عمل اختیار کیا جیسے ہندی رسم الخط کی ترویج، تقسیمِ بنگال کی تنسیخ، اسمبلی اور مقامی حکومتوں میں اپنی اکثریت کے بل پر ایسے قوانین کی منظوری جو ہندوو¿ں کے حق میں اور مسلمانوں کے خلاف جاتے تھے تو اکبر کو یقین ہو گیاکہ ہندو اور مسلمان اکٹھے نہیں رہ سکتے اور اس سوچ میں وہ سرسیّد کے قریب آ گئے:
خموش ہو گیا بت کی طرح میں کونسل میں
برہمن اٹھے جو اپنی میجارٹی لے کر
علاوہ ازیں، اکبر نے گاندھی کا رویہ دیکھا تو اس میں بہت سے تضادات دکھائی دیے۔ اس کی تفصیل ان کی کتاب ’گاندھی نامہ‘ میں موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ گاندھی انگریزوں کو رخصت کرکے ہندوستان پر کانگریس کا مکمل قبضہ چاہتے تھے۔ وہ تحریکِ آزادی کو ایک خاص سطح تک ابھار کر پھر مفاہمت پر تیار ہو جاتے تھے۔ اکبر نے انگریز سے مخاطب ہو کر کہا:
ہوں مبارک حضور کو گاندھی
ایسے دشمن نصیب ہوں کس کو؟
کہ پٹیں خوب اور سر نہ اٹھائیں
اور کھسک جائیں جب کہو کھسکو
گاندھی ایسے حالات کے منتظر تھے کہ مسلمانوں کی مختلف سیاسی اور دینی جماعتیں آپس میں لڑ لڑ کر اتنی کمزور ہو جائیں کہ کانگریس کو آزادی کے بعد مجبوراً قبول کر لیں۔ اس کے لیے گاندھی نے اس بات کو ہوا دی کہ بعض مسلمان لیڈر افغانستان کی مدد سے انگریز کو نکال کر ہندوستان پر اپنی حکومت قائم کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اکبر جانتے تھے کہ افغان اتنے کمزور ہیں کہ افغانستان کو بھی بچا نہیں سکتے، ہندوستان کے مسلمانوں کی مدد کرنا ان کے لیے کیسے ممکن ہے! لیکن اس مسئلے کو چھیڑنے کا ایک مقصد انگریزوں کو مسلمانوں سے مزید متنفر کرنا تھا۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ انگریز کانگریس پر مزید انحصار کرنے لگیں اور مقامی حکومتیں انھی کے سپرد کر دیں۔ 1935ءکے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ نے یہی راستہ ہموار کیا چنانچہ کانگریس نے جلد بازی میں سب کچھ اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کی مگر نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم لیگ مضبوط ہو گئی۔ یہ دور اقبال نے قریب سے دیکھا اور چند سال بعد حالات کی یہی کشمکش 1945-46ءکے الیکشن میں مسلم لیگ کی کامیابی کا باعث بنی۔
اس وقت تک سرسیّد، اکبر اور اقبال تینوں نہ رہے مگر تینوں نے مسلمانوں کے لیے جدوجہد میں اپنا اپنا کردار پوری طرح ادا کیا اور مسلمانانِ ہند کو صراطِ مستقیم دکھانے میں نمایاں حصہ لیا۔ حتیٰ کہ ہندوستان کے دو ٹکڑے ہو گئے اور ایک نئی مسلم مملکت وجود میں آ گئی۔ اکبر نے اپنے زمانے کے مسلمانوں کی جن اجتماعی خرابیوں کی نشاندہی کی ان کی طرف نہ اس وقت دھیان کیا گیا نہ اب توجہ دی جا رہی ہے۔ سب سے پہلے اکبر نے ذاتی مفادات کے لیے گروہ بندی کی مذمت کی۔ یہ پارٹی بازی سیاسی جماعتوں کے نام پر ہو، مذہبی فرقوں کی باہمی نفرتوں کی بنیاد پر ہو، طبقاتی استحصال کے ذریعے یا کسی بھی وجہ سے، اگر کسی اخلاقی بنا پر نہ ہو اور اس کا مقصد معاشرے کی فلاح و بہبود کی بجائے مفاد پرستی پر ہو تو اس سے ملک و قوم کو کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ توکل، قناعت اور اعتدال لیڈروں کے لیے لازم ہے مگر اقتدار صاحبانِ اقتدار کو شاہانہ کروفر کی رغبت دلاتا ہے، پھر یہ لوگ اپنے پورے خاندان کو شریکِ اقتدار کر لیتے ہیں تاکہ انھیں کسی طرف سے کوئی خطرہ نہ رہے۔ آج تک صرف وہی مقتدر لوگ معاشرے کو بہتر بنا سکے ہیں جنھوں نے مساوات، عدل اور خود احتسابی سے حکومت کی۔ حرص اور لالچ کے متمنی کبھی بہتر نظام قائم نہیں کر سکتے۔ انھیں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ اگر آپ زر و جواہر کے ڈھیر اکٹھے کر لیں گے تو کب تک زندہ رہیں گے؟
نہایت خوش نما پتھر پڑے ہیں عقل پر ان کی
جنھیں تسکین بے لعل و زمرد ہو نہیں سکتی
بے اندازہ دولت اکٹھی کرنے کا یہ لالچ ہی اپنے ساتھ بہت سی دیگر خرابیاں لاتا ہے۔ اسی وجہ سے خاندانی اور گروہی سیاست فروغ پاتی ہے۔ اسی سبب مافیا پالے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے مقننہ، منتظمہ اور عدلیہ کے مرغانِ دست آموز سدھائے جاتے ہیں۔ اسی مقصد کے لیے ذرائع ابلاغ میں جی حضوریوں کی پرورش کی جاتی ہے۔ اس لیے اکبر اپنی شاعری میں یہ تلقین کرتے ہیں کہ اخلاقی انحطاط قوموں کو بگاڑتا ہے اور بلندیِ کردار انھیں عروج کی طرف لے جاتی ہے۔ جب تک ہم اپنے اجتماعی اخلاقی معائب یعنی منافقت، خوشامد، دروغ، جذباتیت، حرص (منصب و دولت دونوں)، کینہ، غیبت وغیرہ کو دور نہیں کریں گے اور راستی، نرم خوئی، محنت، قناعت، ذمہ داری اور خود احتسابی وغیرہ کو نہیں اپنائیں گے ہم ایک پس ماندہ قوم ہی رہیں گے۔ لیکن سوالوں کا سوال یہ ہے کہ اس کا آغاز کس طرح ہوگا؟ قوم جیسی ہوتی ہے لیڈر بھی ویسے ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے سیاستدانوں سے اس مسئلے میں کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے بلکہ قوم کے دانشوروں اور سربر آوردہ لوگوں کو مسائل پر بحث مباحثے کرنے چاہئیں۔ شاید اس طرح قوم کو کوئی راہِ راست مل جائے ورنہ سب کچھ ایسا ہی رہے گا بلکہ خراب تر ہوتا چلا جائے گا۔ (ختم شد)