بنیادی مسائل ، سکون اور مقامی حکومتیں
ہمارا پیارا پاکستان جس کا مطلب ہمیں کلمہ طیبہ بتایا گیا ہے اور جس کو بنانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ہم ایک ایسا ملک بنائیں جہاں بر صغیر کے مسلمان اسلام کے سائے تلے آزادی ، امن اور سکون کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔ ان میں سب سے اہم سکون ہے ، کیونکہ سکون کے بغیر امن، آزادی بلکہ زندگی ہی بے مقصد رہ جاتی ہے۔ آج اس پاکستان کی آبادی ساڑھے تئیس کروڑ کے لگ بھگ ہے اور اس میں نناوے فیصد سے زیادہ ” عام آدمی“ ہیں۔ تئیس کروڑ سے زیادہ ان عام آدمیوں کی عام سی زندگیوں کو بے سکون کرنے والے مسائل بھی بہت عام سے ہیں۔ جیسے صاف پانی، صاف ماحول، نکاسیِ آب، گلی محلے میں سٹریٹ لائٹ، اندرون شہر سفر کے لیے با عزت پبلک ٹرانسپورٹ، چادر اور چار دیواری کا تحفظ، بچوں کے لیے گھر کے پاس کھیلنے کا میدان اور پڑھنے کے لیے علاقے میں ایک اچھا سکول اور چھوٹا سا مقامی کتب خانہ وغیرہ۔ ان بنیادی مسائل کے حل کے لیے ” میگا پراجیکٹ“ بنانے کی ضرورت نہیں ۔ بڑے پراجیکٹ اور قومی مسائل وفاقی و صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہیں جبکہ یہ چھوٹے چھوٹے ( لیکن زندگی میں سکون کے لیے بہت بڑے اور اہم) مسائل مقامی سطح پر حل کیے جا سکتے ہیں ۔ بلکہ ان کے حل کا اصل اور واحد ذریعہ ہی ” مقامی سطح“ پر چنے ہوئے نمائندوں کی ” مقامی حکومت“ یعنی مضبوط بلدیاتی نظام ہے کیونکہ مقامی لوگ ، مقامی نمائندے اور مقامی حکومت عوام کے مقامی مسائل کو زیادہ بہتر جانتے ہیں اور حل کر سکتے ہیں اسی طرح عوام بھی ان مقامی حکومتوں کے ساتھ زیادہ بہتر رابطے میں رہ سکتے ہیں۔
جب سے پاکستان بنا ہے ہم اس ”مقامی حکومت“ (لوکل گورنمنٹ) کی نعمت سے عملی طور پر محروم ہی ہیں ۔ بلدیاتی حکومتوں کے بارے میں جو کام ہوا وہ صرف اور صرف فوجی حکومتوں کے دوران ہوا لیکن ان میں کبھی بھی تسلسل نہیں رہا۔ شاید وہ اس لیے کہ فوجی حکومتیں دراصل وفاقی اور صوبائی سیاسی نظام لپیٹ لیے جانے کے بعد عوام کو کسی نہ کسی قسم کے متبادل سیاسی نظام کا ڈھکوسلہ دینا چاہتی تھیں۔ فوجی حکومتوں کے علاوہ جتنی بھی سیاسی حکومتیں آئیں ان کی تقاریر اور منشور میں چاہے بلدیاتی نظام کے کتنے بھی دعوے ہوں انہوں نے کبھی بھی بلدیاتی نظام اور مقامی حکومتوں کے قیام کے لیے بہت زیادہ سنجیدگی نہیں دکھائی۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت عملی طور پر سندھ، بلوچستان اور پنجاب سمیت کہیں بلدیاتی نظام یا مقامی حکومتیں موجود نہیں۔ خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی حکو متوں نے حلف تو لیا تھا لیکن اب تک انہیں عملی طور پر اختیارت اور معاشی خودمختاری نہیں ملی ۔ یہ صورتحال سیاسی پارٹیوں کے منشور اور وعدوں کے بھی خلاف ہے اور پاکستان کے آئین کی بنیادی روح کے بھی جس میں کہا گیا ہے کہ منتخب کردہ مقامی حکومت ضروری ہے۔ یہ مقامی حکومتیں آبادی کے لحاظ سے یونین، وارڈ، ٹاﺅن، تحصیل یا ضلع کی سطح پر بھی ہو سکتی ہیں اور کراچی، لاہور اور فیصل آباد جیسے بڑے شہروں میں ” سٹی گورنمٹ“ کی صورت میں بھی ۔ شہروں اور قصبوں کے تمام ایسے فیصلے جو بنیادی شہری اور انسانی سہولیات کے بارے میں ہوں یا جن کا اثر اس قصبے یا شہر کے نقشے، رہن سہن اور شہریوں پر پڑنا ہو وہ شہریوں کی شمولیت اور ”عوامی سماعت “ اور عوامی بحث کے بعد عوام کے سامنے ہونے چاہئیں نہ کہ اسلام آباد کے کسی ہال یا ڈرائینگ روم میں۔ دنیا کے تمام مہذب شہرو ں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف فیصلے بہتر ہوتے ہیں بلکہ ان کا نفاذ بھی جلد اور بہتر انداز میں ہوتا ہے۔ کرپشن بھی کم ہوتی ہے اور اگر ہو تو انصاف بھی جلد ہوتا ہے ۔ کیونکہ سب کچھ سب کے سامنے ہوتا ہے۔
ہر سیاسی جماعت بلدیاتی نظام کی خوبیاں تو گنواتی ہے لیکن کوئی بھی وفاقی یا صوبائی حکومت مضبو ط بلدیاتی نظام نہیں چاہتی۔ عوام کی عدالت کی سچائی اور اہمیت کے قصیدے پڑھنے والے سیاستدان خواہ کسی پارٹی کے ہوں، مقامی سطح پر عوا م کو حقوق اور اختیار دینے سے گریزاں ہیں۔ وجہ صاف ہے۔تمام اختیارات پر مکمل قبضہ۔ علاوہ ازیں ہماری ہر سیاسی پارٹی چاہتی ہے کہ گلی محلے میں ایک بلب بھی لگے تو اس حکومت کی واہ واہ ہو۔ کسی محلے میں کسی گلی کی مرمت بھی ہو تو اس علاقے سے تعلق رکھنے والے کسی وفاقی یا صوبائی وزیر کے شکرےے کے لیے گلیوں میں بینر اور اشتہار لگیں۔ چاہے وہ وزیر تعلیم کا ہی کیوں نہ ہو۔ پچھتر برس کی آزادی کے بعد بھی ہم میں اتنا شعور اور ہمت نہیں ہے کہ ہم یہ سوال کر سکیں کہ گلی کی مرمت کا وزیر تعلیم سے کیا تعلق؟ اس وزیر نے کچھ کرنا تھا تو تعلیم کے لیے کرتا۔ تعلیم کا ذکر آیا تو یہ سوال بھی ذہن میں اٹھتا ہے کہ پاکستان بھر میں سرکاری سکول موجود ہیں۔ عمارتیں بھی ہیں ، ٹیچروں کو تنخواہیں بھی مل رہی ہیں۔ انفرا سٹرکچر کے حساب سے پرائیوٹ سکول ان سرکاری سکولوں کے قریب بھی نہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ کوئی ان سرکاری سکولوں میں اپنے بچوں کو بھیجنے کو تیار نہیں؟ کیا بہتر نہیں ہوگا اگر ان سکولوں کا انتظام وفاق یا صوبائی حکومت کی بجائے مضبوط مقامی حکومتوںکے ذریعے ان ہی لوگوں کے حوالے کر دیا جائے جن کے بچوں نے ان سکولوں میں پڑھنا ہے۔ سارا نظام خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ یہی اصول بنیادی صحت، نکاسی آب، شہری پولیس، پانی کی سپلائی، گلیوں کی مرمت وغیرہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔اگر اس نظام کو قائم کر کے چلنے دیا جائے تو مختلف شہروں اور قصبوں میں مثبت مقابلہ بازی پیدا ہو گی جس کی وجہ سے سیاستدانوں کو ” ڈلیور“ کرنا پڑے گا بصورت دیگر مقامی سطح پر ہی ان کا فوری احتساب ہو جائے گا۔ اس طرح بہتر سیاستدان اوپر آئیں گے اور ”خاندانی سیاست“ کا خاتمہ ہو گا۔
٭....٭....٭