• news

 آئی ایم ایف سے قرض پر وگرام کی بحالی کا امکان  اور سپریم کورٹ کے چشم کشا ریمارکس


جنیوا میں گزشتہ روز عالمی موسمیاتی ڈونرز کانفرنس کے موقع پر پاکستان کے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ بھی مذاکرات ہوئے۔ وزارت خزانہ کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف مشن چیف ناتھن پورٹر سے ملاقات کی جس کے دوران پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز پر تبادلہ¿ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر وزیر خزانہ نے قرض پروگرام پر عملدرآمد کے عزم کو دہرایا۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان سے ڈالر کا ایکسچینج ریٹ مارکیٹ کے مطابق کرنے اور مصنوعی پابندی ہٹانے کا تقاضا کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کو 30 جون 2023ءتک پٹرولیم لیوی 855‘ ارب روپے جمع کرنے کا آئی ایم ایف کو پلان دینا ہوگا جس کیلئے ڈیزل پر لیوی فوری طور پر 32.5 روپے سے بڑھا کر 50 روپے لٹر کرنا ہوگا۔ اسی طرح گیس کے شعبے میں 15 سو روپے کا سرکلر ڈیٹ ختم کرنا ہوگا جس کیلئے گیس کے ریٹ بڑھانا پڑیں گے۔ اسی طرح آئی ایم ایف سبسڈیز کا خاتمہ چاہتا ہے جبکہ آئی ایم ایف ٹیکس آمدن میں بھی تین سو ارب روپے کے اضافہ کا مطالبہ کررہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کرتے ہوئے بجلی کے ریٹ بھی بڑھانا ہونگے۔ اس سلسلہ میں آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی کے نرخ 35 روپے فی یونٹ بڑھانے کا تقاضا کیا گیا ہے۔ 
یہ حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کے بھاری سود پر حاصل ہونیوالے قرضوں پر انحصار کرکے ہم نے اپنی قومی خودمختاری کو ہی بٹہ نہیں لگایا‘ اپنی معیشت کو بھی قرض دہندہ عالمی اداروں کا دست نگر بنادیا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کی بنیاد پر ہماری بدحالی کا آغاز جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں ہوا تھا اور یہ قرضے آج ہمارے لئے آکاس بیل بن کر ہماری معاشرت و معیشت پر نحوست کے سائے پھیلا چکے ہیں جبکہ آئی ایم ایف کا شکنجہ اتنا مضبوط ہو گیا ہے کہ ہماری کوئی حکومت چاہتے ہوئے بھی خود کو اس سے نہیں نکال سکتی۔ اس وقت بیرونی قرضوں پر واجب الادا سودکی رقم اصل زر سے بھی دو گنا ہے چنانچہ ہمیں سود کی ادائیگی کیلئے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔ سود اداہو گا تو اصل زر کی ادائیگی کی نوبت آئیگی جبکہ ہماری معیشت کا اسی گھن چکر میں عملاً دیوالیہ ہو چکا ہے اور ہم مجبور محض بن کر آئی ایم ایف کی ہر شرط سر تسلیم خم کرکے قبول کر رہے ہیں۔ اگرچہ امریکی نشریاتی ادارے بلومبرگ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں عندیہ دیا ہے کہ پاکستان کے موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر اگلے چھ ماہ تک اسے ڈیفالٹ ہونے سے بچائے رکھنے کیلئے کافی ہیں تاہم آئی ایم ایف نے پاکستان کے قرض پروگرام کی بحالی کیلئے جو تقاضے کئے ہیں‘ وہ پورے کرتے کرتے پاکستان کے عوام عملاً کنگال ہو جائیں گے اور ان کیلئے تن ڈھانپنا بھی شاید مشکل ہو جائیگا۔ یہ امر واقعہ ہے کہ آج ملک کے نئے پیدا ہونیوالے بچے تک مقروض ہیں‘ جن کی آزادی اور ملک کی خودمختاری تک آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھی جا چکی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس عمر عطاءبندیال کی سربراہی میں ریلوے گاف کلب کی لیز سے متعلق کیس کی سماعت کرنیوالے عدالت عظمیٰ کے بنچ نے بھی گزشتہ روز اسی تناظر میں ریمارکس دیئے ہیں کہ عالمی مالیاتی اداروں سے اربوں ڈالر قرض کے معاملہ کو آج عوام بھگت رہے ہیں۔ کیا سب بیچ کر ملک چلانا ہے؟ فاضل عدالت نے بجا طور پر باور کرایا کہ ملک کو حکمرانوں کی پرتعیش آسائشات کی نہیں‘ پرفارمنس کی ضرورت ہے۔ اسکے برعکس حکمرانوں کی جانب سے قوم کو یہ باور کرایا جاتا ہے قرض لے کر ہم خودداری کی بات نہیں کر سکتے۔ قرض دہندگان تو ہمیں خودداری کے ساتھ آنکھ اٹھا کر دیکھنے بھی نہیں دیتے۔ 
اس گھمبیر اور نازک صورتحال میں اگر ہم نے بیرونی قرضوں سے خلاصی پانے کا تردد نہ کیا تو ہماری معیشت آئی ایم ایف کے کھونٹے کے ساتھ ہی بندھی رہے گی اور ہم آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے کرتے ملک اور قوم کا خودداری کا والا چلن بھلا بیٹھیں گے جبکہ انتہاءدرجے کی غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے باعث معاشرے میں پھیلتی مایوسی ہمارے معاشرے میں زندہ قوم والا تصور ہی ناپید کردیگی۔ بے شک وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اسی تناظر میں خودانحصاری کو ملک و قوم کی اصل منزل قرار دیا ہے جو کسی قوم کی معاشی اور سیاسی آزادی کی ضمانت ہوتی ہے۔ مگر افسوسناک صورتحال تو یہ ہے کہ سابق حکمران پی ٹی آئی کی قیادت بھی آئی ایم ایف کے قرضوں پر پھبتیاں کستے اور ان قرضوں کے بجائے خودکشی کو ترجیح دیتے دیتے اپنے دور حکومت کے آغاز ہی میں بیل آﺅٹ پیکیج کیلئے آئی ایم ایف کی دہلیز پر پہنچ گئی اور پھر اسکی ہر شرط قبول کرکے عوام کے تنِ مردہ سے خون کا آخری قطرہ نچوڑنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ قومی میزانیوں کا فوکس ہی آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد پر رکھا چنانچہ پارلیمنٹ اور سٹیٹ بنک سمیت قومی ریاستی ادارے آئی ایم ایف کے آگے دوزانو بیٹھے نظر آنے لگے۔ 
جب عمران خان کو یقین ہو گیا کہ انکے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جائیگی تو انہوں نے آنیوالے حکمرانوں پر ملبہ ڈالنے کیلئے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر ریورس گیئر لگا دیا۔ اس طرح موجودہ حکمران نہ صرف آئی ایم ایف کی شرائط بلکہ ڈومور کے تقاضے پورے کرنے پر بھی مجبور ہو گئے۔ اسکے باوجود آئی ایم ایف نے عمران حکومت کی تسلیم کردہ شرائط پوری نہ ہونے پر پاکستان کیلئے اپنا قرض پروگرام معطل کر دیا جس کی اب بمشکل تمام بحالی کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ بلاشبہ یہ صورتحال ملک اور قوم کو عملاً آئی ایم ایف کی غلامی میں دینے کے مترادف ہے جس سے خلاصی صرف خودانحصاری کی جانب رخت ِ سفر باندھ کر ہی پائی جاسکے گی۔ 
موجودہ حکومت نے بے شک عوام پر بوجھ ڈال کر ٹیکس نیٹ بڑھایا ہے اور مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی ہے مگر ٹیکس چوری اور مفت خوری کے عادی یہ طبقات اب حکومت کے یہ اصلاحاتی اقدام ناکام بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جس کی بنیاد پر ان طبقات پر ٹیکس کا پڑنے والا بوجھ بھی عوام کی جانب منتقل ہونے کا خطرہ موجود ہے جو عوام میں مزید اضطراب کا باعث بنے گا۔ چنانچہ آج جہاں حکومت کیلئے اپنی رٹ مضبوط بنانے کی ضرورت ہے وہیں اسے ملک کی دھرتی میں چھپے ہوئے قومی وسائل سے استفادہ کیلئے جامع حکمت عملی وضع کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اسی طرح اب پژمردہ قوم پر مہنگائی کا مزید بوجھ لادنے کی بجائے حکمران اشرافیہ طبقات کو اپنی عیش و عشرت اور اللے تللوں کی قربانی دینا ہوگی۔ حکومتوں کے غیرترقیاتی اخراجات کم کرنا ہونگے۔ بیوروکریسی کو حاصل غیرضروری مراعات اور عیاشی والی سہولتوں کا خاتمہ کرنا ہوگا اور بڑی سرکاری گاڑیوں کی بجائے آٹھ سو سی سی والی چھوٹی گاڑیوں پر قناعت کرنا ہوگی۔ ہمیں درحقیقت اپنے رہن سہن اور عیش و عشرت والے کلچر میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے ہمیں محض فکرمندی والی زبانی جمع خرچ سے باہر نکل کر ٹھوس عملی اقدامات اٹھانا ہونگے تاکہ ملک اور قوم کو آئی ایم ایف کے چنگل سے نکالنے کا کوئی راستہ ہموار ہو سکے۔ 

ای پیپر-دی نیشن