• news

بدھ،18 جمادی الثانی 1444ھ، 11 جنوری 2023ئ


تینوں پارٹیاں چلا ہوا کارتوس ہیں۔ سراج الحق
یہ تو سراج الحق صاحب نے بڑے پتے کی بات کر دی ہے۔ اب عوام کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے تاکہ ان چلے ہوئے کارتوسوں سے جان چھوٹے۔ اب اگر بقول امیر جماعت اسلامی یہ پارٹیاں چلا ہوا کارتوس ہیں تو کیا جماعت اسلامی جدید پمپ ایکشن، راکٹ لانچر یا کلاشنکوف ہے جسے آزمانا اب باقی رہ گیا ہے جبکہ خود جماعت بھی کئی دہائیوں سے سیاست کر رہی ہے الیکشن لڑ رہی ہے۔ یہ پرانی پارٹیاں تو اب عوام کیلئے بے معنی ہیں۔ ان کارتوسوں کے چلنے یا لگنے کا اب کوئی خوف باقی نہیں رہا۔ ظاہر ہے چلے ہوئے تو ٹھس ہوتے ہیں۔ ہاں اگر جماعت اسلامی کو عوام نے آزما لیا اور کہیں یہ راکٹ لانچر، پمپ ایکشن یا کلاشنکوف کا نشانہ خطا ہو گیا تو پھر کیا ہو گا۔یہ تو کارتوس کی نسبت زیادہ تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ ویسے بھی افغان وار کے بعد جماعت کے پاس کافی جمع شدہ آتشیں سامان تو موجود ہو گا۔ وہ کون سا انہوں نے واپس کیا ہو گا امریکہ کو یا مشرف کو۔ اس لیے عوام سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کریں۔ کہیں یہ استعمال شدہ سامان اگر باہر آ گیا تو کیا ہو گا۔ ہر طرف ٹھاہ ٹھاہ ہو گا۔ ویسے فی الحال ایسی تو کوئی امید نظر نہیں آ رہی کہ اتنی جلدی یہ سب کچھ ہو۔ مگر انہونی کسی بھی وقت ہو سکتی ہے اس لیے سراج الحق بھی عوام کو جگا رہے ہیں کہ سیاسی حالت بدلیں۔ صرف شریفوں، زرداریوں اور نیازیوں پر ہی بھروسہ نہ کریں اور بھی دوسری جماعتوں بشمول جماعت اسلامی کو بھی آزمائیں۔ کیا معلوم خیر کہاں سے مل جائے۔ جماعت اسلامی ایک منظم جماعت ہے۔ سٹریٹ پاور کی شکل میں جمعیت ، پاسبان اور دیگر چھوٹی بڑی تنظیمیں بھی ہیں۔ مساجد اور مدارس بھی ہیں وہ ایک بھرپور الیکشن مہم چلائیں تو آئندہ الیکشن میں کچھ نہ کچھ بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ اس کیلئے انہیں عوام کو اپنی طرف مائل کرنا ہو گا۔ 
٭٭٭٭
روس سے گندم آنے کے باوجود آٹے کا بحران ختم نہ ہو سکا۔ مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہر۔ 
 صرف احتجاجی مظاہرے ہی نہیں ہوئے بات لوٹ مار تک جا پہنچی ہے۔ صوبہ خیبر پی کے میں باپردہ خواتین کئی دنوں سے احتجاجی مظاہرے کر رہی ہیں۔ سڑکوں پر دھرنے دے رہی ہیں جبکہ ایسا وہاں بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ مگر جب روٹی نہیں ملے گی آٹا نہیں ملے گا تو پھر یہی کچھ ہو گا۔ سندھ میں تو آٹے کے حصول کیلئے آنے والے دو افراد کی اب تک بھگڈر مچنے اور ایک تھیلے کیلئے گتھم گتھا ہونے کی وجہ سے موت بھی واقع ہو چکی ہے۔ کئی افراد جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں زخمی ہو چکے ہیں۔ تقریباً یہی حالت پنجاب اور بلوچستان کی بھی ہے۔ جہاں آٹا نایاب ہو چکا ہے اور شہری سستے آٹے کے ٹرک لوٹ رہے ہیں۔ دوسری طرف روٹی کی قیمت عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہے۔ پنجاب میں چپاتی جیسی روٹی 15 روپے میں مل رہی ہے جو گندم پیدا کرنے میں خود کفیل ہے۔ جہاں آج بھی گودام بھرے ہیں مگر مافیا قیمت بڑھنے کے انتظار میں ہے۔ چاہے غریب لوگ بھوکے رہیں انہیں کوئی پرواہ نہیں۔ اب روس سے گندم کی درآمد کے بعد اُمید ہے حالات میں کچھ بہتری آئے گی۔ فلور ملز سے مزید اضافی آٹے کی فراہمی شروع ہو گی تو لوگ مطمئن ہوں گے۔ مگر دوسری طرف لاہور میں دیکھ لیں بڑی بڑی شاہراہوں پر سرکاری نیلے تھیلے والے آٹے کے ٹرک سرکاری قیمت پر آٹا فروخت کرنے کیلئے کھڑے ہیں مگر خریدار نہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ آٹا غیر معیاری ہے مفت بھی ملے تو نہ لیں۔ افسوس کی بات ہے جو آٹا 15 یا بیس روپے کلو تک ملنا چاہیے وہ 165 روپے فی کلو تک جا پہنچا ہے۔ یہ قیامت نہیں تو اور کیا ہے۔ اب غریب روٹی کھائے یا زہر۔ ایسے حکمران ذخیرہ اندوز مافیاز اور انتظامیہ روز محشر میں کس کس ظلم کا حساب دیں گے۔ کیا انہوں نے کبھی اس بارے میں سوچا ہے۔ 
٭٭٭٭
افغانستان میں لڑکیوں کو صرف پرائمری تک تعلیم کی اجازت۔ گرلز سکول بند کر دئیے گئے 
ایک طرف طالبان حکومت یہ دعوے کرتی پھر رہی ہے کہ لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔ دوسری طرف لڑکیوں کے تمام بڑے سکول کالجز اور یونیورسٹیاں بند کر دی گئی ہیں۔ سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان پر بند ہو رہے ہیں۔ خواتین کو دفتر آ کر کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اب انہیں بہلانے کیلئے کہا جا رہا ہے کہ انہیں گھر بیٹھے تنخواہ ملے گی۔ اگر ایسا ہی عادلانہ نظام لانا ہے تو پھر صرف ملازم پیشہ خواتین ہی کیوں۔ سارے ملک میں گھر میں کام کاج کرنے والی خانہ دار خواتین کو بھی وظیفہ ملنا چاہیے۔ اسلامی معاشرے اور حکومت کا تو یہی حسن ہے کہ غریبوں کو وظیفہ ملتا ہے تاکہ وہ بھیک مانگنے اور اذیت بھری بھوک و ننگ والی زندگی سے محفوظ رہیں۔ دنیا بھر میں طالبان کی اس صنفی امتیاز والی پالیسی کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔ جو ممالک ترس کھا کر یا انسانی ہمدردی کے تحت افغانستان کو مالی ، خوراک و ادویات کی امداد دے رہے تھے وہ بھی اب ہچکچانے لگے ہیں کیونکہ ان کے کارکنوں کی خواتین تک رسائی ناممکن بنا دی گئی ہے۔ بیمار خواتین علاج معالجے سے محروم ہیں۔ تعلیم یافتہ نوکریوں سے اور لڑکیاں تعلیم سے محروم ہو رہی ہیں۔ ان باتوں کا عالمی سطح پر اچھا امیج نہیں جا رہا۔ افغان طالبان حکومت کو اس وقت مسلم ممالک کی طرف سے بھی بار بار کہا جا رہا ہے کہ ان کی سخت گیر پالیسی سے عالمی سطح پر اسلام کے خلاف منفی تاثر جا رہا ہے جو غلط ہے۔ مگر یہاں وہی مرغے کی ایک ٹانگ ۔ افغان طالبان کسی کی نہیں سنتے البتہ امداد کیلئے ہمہ وقت عالمی اداروں اور متمول مسلم و غیر مسلم ممالک کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔اس سے بہتر ہے کہ افغان حکومت کم از کم سعودی عرب اور ایران کے نظام پر ہی نظر ڈالے اور خواتین کے حقوق کی پاسداری کرے۔ لڑکیوں کو علم حاصل کرنے سے روکنا پوری نسل کو جاہل بنانے کے مترادف ہے۔ 
٭٭٭٭
امریکہ۔ 6 سالہ بچے نے سکول ٹیچر کو گولی مار دی 
امریکہ میں پہلے ہی اسلحہ کے عام استعمال کے بعد یہ بحث زوروں پر ہے کہ شہریوں خاص طور پر نوجوانوں کے ہاتھ میں اسلحہ نہیں ہونا چاہیے۔ اب اس موضوع بحث میں مزید اضافہ کرنا پڑے گا کہ صرف جوانوں ہی نہیں بچوں کے ہاتھ میں بھی اسلحہ نہیں ہونا چاہیے۔ جس معاشرے میں کم عمر بچوں کیلئے ڈرائیونگ کرنے ، سگریٹ اور شراب خریدنے پر پابندی ہے۔ وہاں آخر اس 6 سالہ بچے نے یہ گن کہاں سے لی، اسے لے کر سکول کیسے آ گیا۔ کسی نے بھی اسے روک کر نہیں پوچھا کہ منے یہ گن اٹھائے کیا روس فتح کرنے جا رہے ہو۔ کیا امریکی معاشرہ بالکل ہی ایک دوسرے سے قطعی لاتعلقی والے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ یہ لاتعلقی ایک خطرناک بیماری ہے اس کی لپیٹ میں آنے والا کوئی معاشرہ زیادہ دیر محفوظ نہیں رہتا۔ امریکہ میں اسلحہ تک رسائی عام ہے۔اس چھوٹ کی وجہ سے وہاں آئے روز اسلحہ کے ناجائز استعمال کی خبریں ملتی ہیں۔ فائرنگ کے واقعات میں درجنوں لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔ اب معلوم نہیں یہ بچہ فلموں یا پب جی سے متاثر تھا یا ازخود مولا جٹ بننے کے چکروں میں تھا۔ ویسے لگتا ہے امریکی بچے بڑے صحت مند ہوتے ہیں جبھی تو اس چھ سالہ بچے نے گن سے فائرنگ کر کے اپنی ٹیچر کو زخمی کر دیا۔ شکر ہے وہ زیادہ زخمی نہیں ہوئی اور بچ گئی ۔اب بچے کا کیا ہے اسے نہ پکڑا جا سکتا ہے نہ گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ اسے اصلاحی مرکز برائے اطفال میں بھیج کر اس کا نفسیاتی علاج کیا جائے گا تاکہ وہ پھر کہیں راکٹ لانچر لے کر سکول کو ہی نشانہ نہ بنا ڈالے۔ 

ای پیپر-دی نیشن