وزیر اعلی کے پاس ہر وقت اکثر یت ہونی چاہیے ہائیکورٹ :آج پھر سماعت
لاہور (خبرنگار) لاہور ہائی کورٹ کے لارجر بنچ نے گورنر پنجاب کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کیے جانے کے نوٹیفکیشن پر عملدرآمد پر حکم امتناع میں توسیع کرتے ہوئے سماعت آج (جمعرات) 12 جنوری صبح نو بجے تک ملتوی کر دی۔ دوران سماعت فاضل عدالت نے استفسار کیا کہ گورنر پنجاب کے وکیل نے کیا آفر دی تھی۔ گورنر پنجاب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے آفر دی تھی کہ دو سے تین دنوں میں اعتماد کا ووٹ لیں مگر انہوں نے ہماری آفر نظر انداز کردی۔ گزشتہ سماعت سے آج تک کافی وقت گزر گیا ہے لیکن اعتماد کا ووٹ نہیں لیا گا، یہ انکی بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔ عدالت اعتماد کا ووٹ لینے کا وقت مقرر فرما دے۔ بنچ کے فاضل رکن جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ درخواست گزار کو یہ لائن کراس کرنا پڑے گی۔ بنچ کے سربراہ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ منظور وٹو کیس میں بھی 2 دن کا وقت دیا گیا تھا جو مناسب نہیں تھا، اب تو 17 دن ویسے بھی گرز چکے ہیں، اور کتنا مناسب وقت چاہیے، ہم کوئی تاریخ مقرر کر دیتے ہیں اور گورنر کے آرڈر کو موڈیفائی کر دیتے ہیں۔ فاضل عدالت نے پرویز الہیٰ کے وکیل سے سوال کیا کہ گورنر کے وکیل نے آفر دی ہے کہ اعتماد کا ووٹ لیں۔ اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کتنے دن کا وقت آپ کے لیے مناسب ہوگا؟۔ ہم وہ وقت مقرر کردیتے ہیں کہ آپ کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ جس پر پرویز الہیٰ کے وکیل سید علی ظفر نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ اس حوالے سے کچھ گزارشات کرنا چاہتے ہیں۔ گورنر پنجاب نے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہا اور سپیکر کو خط لکھا۔ گورنر نے اپنے خط میں لکھا کہ وزیر اعلیٰ اعتماد کھو چکے ہیں۔ گورنر پنجاب کے حکم کے جواب میں سپیکر نے رولنگ دی۔ سپیکر کی رولنگ کو تاحال چیلنج نہیں کیا گیا۔ پرویزالہٰی کے وکیل نے گورنر پنجاب کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کی آفر مسترد کر دی اور کہا کہ عدالت میرٹ پر فیصلہ کر دے۔ جس پر جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ تو کیا آپ اعتماد کا ووٹ لینے کی آفر قبول نہیں کر رہے؟۔ آپ کا تو اعتراض صرف یہ تھا کہ گورنر نے اعتماد کے ووٹ کے لیے مناسب وقت نہیں دیا۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اس بات میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ وزیر اعلی کو 24 گھنٹے اکثریت کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے۔ وفاق کے وکیل منصور عثمان نے وزیر اعلیٰ کو پھر اعتماد کا ووٹ لینے کا پابند کرنے کی پیش کش کر دی اور کہا کہ عدالت تاریخ اور وقت مقرر کر دے۔ پرویز الہیٰ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ گورنر کا ڈی نوٹیفائی کرنے کا آرڈر ہی غیر قانونی ہے۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اسمبلی نے ہی طے کرنا ہے کس نے رہنا ہے۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم کے17 روز گزر جانے کے باوجود پرویزالہٰی نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ آپ مل بیٹھ کر عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے وقت اور تاریخ طے کر لیں۔ وکیل پرویز الہیٰ نے کہا کہ گورنر صرف اس صورت میں اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں جب صورتحال خراب ہو۔ اسمبلی اجلاس جاری تھا، گورنر ڈی نوٹیفائی نہیں کر سکتے تھے۔ عدالت سے استدعا ہے کہ درخواست کا میرٹ پر فیصلہ کرے۔ فاضل عدالت نے کہا کہ اسمبلی کا فلور ہی وزیر اعلیٰ کے رہنے کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔ پھر ہم اس درخواست کا میرٹ پر فیصلہ کر دیتے ہیں۔ ہمارا تو خیال تھا کہ آپ آفر قبول کریں گے اور اعتماد کا ووٹ لے لیں گے۔ اگر آپ اعتماد کا ووٹ لیں تو گورنر تو نوٹیفکیشن واپس لینے کو تیار ہیں۔ وکیل پرویز الہیٰ نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ کل سے اپنے دلائل کا آغاز کر یں گے۔ عدالت نے کہا کہ کل سے نہیں، آپ اپنے دلائل شروع کریں، ہم روزانہ کی بنیاد پر کیس کو سنیں گے۔ اٹارنی جنرل نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کر دیا اور کہا کہ گورنر کو کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وجوہات دینا ضروری نہیں۔ عدالت کے رکن جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ سیاسی کشیدگی جاری ہے۔ سیاسی جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ پہلے جو کال کرے وہ پھنسے۔ ہم نے اتفاق رائے سے عدم اعتماد کے ووٹ کی ہدایت کی تھی۔ آئین پاکستان کے تحت اعتماد کے ووٹ کے لیے کم سے کم تین روز ضروری ہیں۔ وکیل پرویز الہیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے اعتماد کے ووٹ کے لیے تحریری پیشکش نہیں کی۔ عدالت نے کہا کہ گورنر کا اعتماد کے ووٹ کے لیے مناسب وقت دینا ضروری ہے۔ سماعت جاری تھی کہ عدالت نے کیس پر مزید کارروائی آج تک کے لیے ملتوی کر دی۔
ہائیکورٹ