کراچی بلدیاتی الیکشن
کراچی میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ہونے جارہا ہے اور یہ بلدیاتی انتخابات پہلے دو مرتبہ ملتوی ہوچکے ہیں کیونکہ 2022ءمیں مون سون کے موسم میں ریکارڈ بارشوں نے تباہی مچادی تھی اور بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں رہا تھا۔ اب کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی توقع کی جارہی ہے۔ ماضی قریب میں کراچی میں کچھ نشستوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد ہوا تو کراچی میں پولنگ کے دوران خون خرابہ اور دنگا فساد ہوا جس سے کئی لوگ زخمی اور کچھ ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ ضمنی انتخابات میں امن و امان کے بدترین مسائل دیکھنے میں آئے اور نتائج کو بھی فریقین نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ایسے ماحول میں جب سیاسی تحمل و برداشت موجود نہ رہی ہو تو الیکشن کمیشن و انتظامیہ کو چاہئے کہ ہر صورت انتخابات کے پرامن انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے فوج کو طلب کرے۔ کراچی کو خون خرابے سے بچانے کےلئے بلدیاتی انتخابات میں پولنگ اسٹیشن کے اندر فوج کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ انتخابات پرامن طریقے سے منعقد ہوں اور دھاندلی کا شائبہ تک نہ رہے اور نہ ہی کسی مخصوص سیاسی گروپ کی جانب سے پولنگ اسٹیشنوں کے اندر قانون ہاتھ میں لیکر نتائج پر اثرانداز ہونے کی شکایت پیدا ہوسکے اس لئے کراچی میں عام آدمی کی جان و مال کے تحفظ اور الیکشن کے شفاف انتخابات کیلئے بلدیاتی الیکشن میں فوج طلب کی جائے۔
گزشتہ مردم شماری کے بعد کراچی کے سیاسی گروپوں کی جانب سے مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو کم کرکے لکھنے کی شکایت کی گئی تھی اور اس بنیاد پر حلقہ بندیوں اور ووٹرز لسٹوں کو بوگس قرار دیکر دوبارہ مردم شماری کرانے کے مطالبات کئے جاتے رہے ہیں۔ ملک بھر کے عوام کا مفاد سب سے پہلے پاکستان اور پھر کراچی سے وابستہ ہے۔ کراچی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا شہر ہے۔ کراچی کی آبادی کا درست اندراج ہونا ہی سب کے مفاد میں ہے۔ عام انتخابات سے قبل نئی مردم شماری ہونا ضروری ہے ۔ملک بھر میں نئی مردم شماری کے بعد موجودہ ہر صوبائی اسمبلی کی نشست کے علاقے کو قومی اسمبلی کی نشست قرار دیا جائے اور اسی علاقے میں 2صوبائی اسمبلی کی نشستیں بنائی جائیں اس طرح ملک بھر میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کی تعداد دوگنی ہوجائے گی۔ جس قدر ملکی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے‘ اسی تناسب سے نئی حلقہ بندیاں اور نشستوں کی تعداد دوگنی کرنا بہت ضروری ہوچکا ہے۔ سینیٹ کی نشستوں کی تعداد بھی دوگنی کی جائے۔
دنیا بھر میں موثر بلدیاتی نظام ہی عوام کے بنیادی مسائل کے حل کا ضامن ہے اور جن ممالک میں عوام کے مسائل میں انقلابی کمی آئی ہے وہاں بلدیاتی نظام انتہائی بااختیار اور موثر ہے۔ بلدیاتی نمائندوں کو دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ وسائل کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے تاکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوسکیں۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تمام صوبوں میں بلدیاتی نظام کو غیر موثر کیا گیا ہے اور قانون سازی کرکے تمام تر وسائل و اختیارات صوبائی حکومتوں نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اور غیر موثر بلدیاتی نظام کے تحت بھی انتخابات کے بروقت انعقاد سے راہ فرار اختیار کی جاتی ہے ۔ تمام سیاسی جماعتوں کا وطیرہ ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کو مکمل طور پر بے اختیار و غیر موثر بناکر تمام اختیارات و وسائل اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو دیئے جائیں۔
ملک بھر میں بلدیاتی نظام کو موثر اور بااختیار بنائے بغیر عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل نہیں ہوسکیں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ملک بھر میں زیادہ سے زیادہ وسائل فراہم کرکے موثر بلدیاتی نظام رائج کیا جائے اور ہر صورت بلدیاتی انتخابات کا بروقت انعقاد یقینی بنایا جائے۔ایسا قانون ملک بھر کیلئے بنایا جائے کہ خدانخواستہ جنگی صورتحال میں بھی ہر صورت بلدیاتی انتخابات بروقت منعقد ہونے چاہئیں۔بلدیاتی نظام کا ہر جمہوری دور میں گلا گھونٹا گیا اور فوجی ادوار میں بلدیاتی نظام کو موثر ترین طریقے سے رائج کیا گیاجس کے باعث عوام کے مسائل حل ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں مثالی بلدیاتی نظام رائج کیا گیا اور بلدیاتی نمائندوں کو بہترین اختیارات و وسائل فراہم کئے گئے جس کے باعث قیام پاکستان سے اس وقت تک مجموعی طور پر ہونیوالے ترقیاتی کاموں کے برابر کام صرف 5سال میں ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کا بلدیاتی نظام اس قدر کامیاب تھا کہ 3اراکین قومی اسمبلی نے اپنے عہدوں سے استعفے دیکر ڈسٹرکٹ کونسل کی چیئرمین شپ حاصل کی۔ بلدیاتی انتخابات کا غیر جماعتی بنیادوں پر انعقاد بہترین ہے کیونکہ گلی محلے کے معزز لوگوں کے موثر چنا¶ میں غیر جماعتی بنیادوں پر ہی مدد ملے گی۔مردم شماری کے بعد عام انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوں تاکہ کوئی ووٹ بھی ضائع نہ ہو اور سیاست سے دولت کے عنصر کا خاتمہ ہوسکے۔ صوبوں میں بھی ووٹ کے تناسب سے نشستیں مل سکیں۔ تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر اس معاملے پر اتفاق رائے پیدا کریں اور باقاعدہ قومی اسمبلی سے قانون پاس کیا جائے کہ انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہونگے۔ اسکے علاوہ تین اہم عہدوں صدر‘ وزیراعظم ‘ آرمی چیف اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کے عہدے کی مدت 5سال ہوگی۔ آرمی چیف بھی چیف جسٹس سپریم کورٹ کی طرح سینئر ترین جرنیل ہونا چاہئے۔ 5سال عہدے پر رہ کر ریٹائر ہونا لازمی قرار دیا جائے۔
ارباب اختیار کو چاہئے کہ عوام کے مسائل کی فکر کریں اور باہمی ضد و انا کو چھوڑ کر ملک کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کیلئے مل بیٹھیں۔ تمام ضروری اقدامات پر متفقہ قانون سازی کریں اور انصاف کی بروقت فراہمی کو اولین ترجیح دی جائے کیونکہ کوئی معاشرہ ناانصافی پر نہیں چل سکتا ورنہ یہی حالات ہوتے ہیں جو اس وقت ہمارے ملک میں بن چکے ہیں۔