دنیا ہم پر اعتبار کیوں نہیں کرتی؟
پاکستان اس وقت سنگین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ اس سے بھی سنگین تر بحران سیاسی ہے جس کا پاکستان کو گزشتہ تقریباً دس برس سے سامنا ہے۔ 2013ءکے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کامیاب ہوئی تو پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے شور مچا دیا کہ دھاندلی کر کے ان کا مینڈیٹ چھینا گیا ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے ’پینتیس پنکچر‘ کا الزام بھی گھڑ لیا جو وہ مسلسل دو برس تک دہراتے رہے لیکن پھر ایک روز انھوں نے خود ہی کہہ دیا کہ وہ محض ایک سیاسی بات تھی۔ اسی دوران عمران خان نے مرکزی دارالحکومت اسلام آباد میں 126 دن کا دھرنا بھی دیا جس کا مقصد حکومت گرانا تھا۔ حکومت تو نہیں گری لیکن اس دھرنے کی وجہ سے چینی صدر شی جن پنگ اور اس وقت کے سری لنکن صدر مہندا راجا پاکسے کے دورہ ہائے پاکستان منسوخ ہوگئے۔ چین پاکستان کے لیے تزویراتی اور اقتصادی حوالوں سے جو اہمیت رکھتا ہے اس سے کون واقف نہیں۔ سری لنکا کے ساتھ ہمارے تعلقات چین جیسے نہ سہی لیکن پھر بھی یہ مناسب نہیں کہ کسی سربراہِ ریاست یا حکومت کا دورہ اس بنیاد پر ملتوی یا منسوخ ہو جائے کہ میزبان ملک میں ایک سیاسی جماعت دارالحکومت پر قبضہ کیے بیٹھی ہے۔
خیر، 2018ءکے عام انتخابات کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوگئی۔ مخالف سیاسی جماعتوں نے اس حکومت کی تشکیل سے متعلق کئی سوالات اٹھائے جن کا فوری طور پر تو کوئی جواب نہ دیا گیا لیکن ایک خاص وقت گزرنے کے بعد عمران خان سمیت پی ٹی آئی سے وابستہ کئی اہم لوگوں نے خود اس بات کی تصدیق کی کہ ان کی حکومت کے نہ صرف قیام میں اسٹیبلشمنٹ نے مدد دی بلکہ اسے چلانے اور حزبِ اختلاف کو قابو میں رکھنے کے لیے بھی ’دستِ غیبی‘ کئی بار حرکت میں آیا۔ اگست 2018ءسے اپریل 2022ءتک تقریباً پونے چار برس پی ٹی آئی کی حکومت چلتی رہی اور اس دوران بار بار یہ کہا جاتا رہا کہ ریاست کے تمام ستون، انگریزی محاورے کے مطابق، ایک ہی صفحے پر ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس اتحاد و اتفاق کی برکت سے ملک استحکام کی طرف جاتا اور عوام کے مسائل میں کمی واقع ہوتی لیکن ہوا اس کے بالکل الٹ۔ اسی لیے حزبِ اختلاف کو موقع ملا کہ بگڑتی ہوئی اقتصادی صورتحال اور مہنگائی وغیرہ کو بنیاد بنا کر وہ حکومت کے خلاف ایک محاذ کھڑا کرے اور پھر تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے اسے ختم کردے۔
پی ٹی آئی کو اقتدار سے نکال کرپاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) میں شامل جماعتوں نے خود حکومت تشکیل دی۔ حکمران اتحاد کا حصہ بننے والی جماعتوں سے منسلک افراد جب تک حزبِ اختلاف میں تھے تب تک وہ روز جلسے جلوسوں، پریس کانفرنسوں اور بیانات کے ذریعے عوام کو یہ بتایا کرتے تھے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نااہل ہے اس لیے ملک کے مسائل حل نہیں ہورہے اور عوام کی پریشانیاں مسلسل بڑھتی جارہی ہیں۔ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ جب ہم حکومت میں آئیں گے تو ان مسائل پر قابو پالیں گے کیونکہ ہمارے پاس موزوں حکمت عملی موجود ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے وہی کیا جو گزشتہ تقریباً نصف صدی کے دوران بننے والی ہر سیاسی یا جمہوری حکومت کرتی آئی ہے کہ ہر خرابی کا ملبہ سابقہ حکومت پر ڈال دیا اور پچھلے نو مہینے سے ملکی اور عوامی مسائل کو پس پشت ڈال کر قوم کو صبح و شام صرف یہ بتایا جارہا ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے خرابی پیدا کی جس کے باعث مسائل بے قابو ہوگئے۔
موجودہ پارلیمان کی آئینی مدت پوری ہونے میں ابھی سات مہینے باقی ہیں اور ساڑھے چار برس کے دوران پاکستان چھے وفاقی وزرائے خزانہ بدل چکا ہے؛ ان میں سے چار وزرائے خزانہ پی ٹی آئی نے لگائے (اسد عمر، عبدالحفیظ شیخ، حماد اظہر اور شوکت ترین) اور دو (مفتاح اسماعیل اور اسحاق ڈار) موجودہ حکمران اتحاد نے۔ ہر وزیر خزانہ کو لگاتے وقت بہت سے دعوے کرتے ہوئے قوم کو بتایا گیا کہ ملک کے اقتصادی مسائل کا حل اسی مسیحا کے پاس ہے۔ اب یہ آگیا ہے تو پٹرولیم مصنوعات سمیت اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی کم ہو جائیں گی اور معیشت کی ہچکولے کھاتی نیّا بھی سنبھل جائے گی۔ پھر جب مسائل حل نہیں ہوسکے بلکہ ان میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا تو ان صاحب کو پردہ¿ سکرین سے ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ قوم کے سامنے ایک نیا مسیحا پیش کردیا گیا۔ اس نئے مسیحا نے جو کچھ کیا وہ قریب قریب ویسا تھا جیسا کفن چور کے بیٹے نے اپنے باپ کے مرنے کے بعد کیا تھا جس کے نتیجے میں لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اس سے تو اس کا باپ ہی بہتر تھا!
اس وقت ملک سنگین ترین حالات سے گزر رہا ہے اور ہر طرف سے اس کے دیوالیہ ہونے کی صدائیں بھی بلند ہورہی ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری سیاسی قیادت اپنا قبلہ درست کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی۔ ملکی اور عوامی مفادات کی بجائے ذاتی اور گروہی مفادات کو ترجیح دی جارہی ہے جس کے نتیجے میں معاملات مزید بگڑتے جارہے ہیں۔ ہماری قومی سطح کی پالیسیوں کا تسلسل نام کی کسی شے سے کوئی لینا دینا ہی نہیں۔ ہر نئی حکومت پچھلی پالیسیوں پر خاک ڈال کر اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے نئی قومی پالیسی تشکیل دیتی ہے اور پھر ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے اپنے چاہنے والوں کے ذریعے اس پالیسی کے حق میں پراپیگنڈا کرایا جاتا ہے۔ ایک حکومت کسی خاص طرح کے حالات میں ایک ملک یا ادارے کے ساتھ کوئی معاہدہ کرتی ہے تو دوسری آ کر اس معاہدے کو ختم کرنے پر تل جاتی ہے۔ اس سب کی وجہ سے کوئی ملک اور ادارہ پاکستان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں کیونکہ انھیں اس بات کا یقین ہی نہیں ہوتا کہ ایک حکومت کے جانے کے بعد نئی آنے والی حکومت ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گی۔