پنجاب: سیاسی رسہ کشی بند کی جائے
پنجاب آبادی کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور ملک کی نصف سے زائد آبادی اس صوبے میں رہتی ہے۔ گزشتہ ایک سال سے اس کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی قیادت کو آبادی کے اتنے بڑے حصے کی کوئی پروا نہیں۔ سابق وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کے دور میں پنجاب کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اپنی جگہ ایک داستان ہے لیکن ان کے ہٹنے کے بعد سے صوبہ مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنے تقریباً چھے مہینے ہوگئے ہیں اور اس دوران حزبِ اختلاف کی طرف سے ہر ممکن کوشش کی گئی کہ ان کو سکون سے صوبے کے مسائل و معاملات پر توجہ نہ دینے دی جائے۔ اس سلسلے میں سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کردار بھی غیر سنجیدہ رہا ہے کیونکہ وہ وفاقی حکومت کو پریشان کرنے کے لیے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کو استعمال کررہے ہیں۔ سیاسی رسہ کشی کے اس ماحول میں سب سے زیادہ نقصان ملک اور عوام کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ تناؤ کی اس صورتحال میں اب ایک خوش آئند بات یہ سامنے آئی ہے کہ پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی میں 186 ارکان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا ہے۔ اس حوالے سے بلایا گیا اسمبلی اجلاس 12 گھنٹے سے زائد وقت تک چلتا رہا۔ اس ہنگامہ خیز اجلاس میں رائے شماری کے موقع پر اپوزیشن رولز آف پروسیجر پر اعتراض کرتے ہوئے احتجاج کرتی رہی۔ اس دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔ خیر، اب جبکہ پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لے چکے ہیں تو فریقین کو سیاسی دنگل مزید آگے بڑھانے کی بجائے اب عوامی مسائل پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ اس وقت بہت سے مسائل بد انتظامی کی وجہ سے بے قابو دکھائی دے رہے ہیں، بالخصوص آٹے جیسی بنیادی ضرورت کی شے کی عدم دستیابی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ حکومت کی توجہ کسی اور طرف ہے۔ اس پارلیمان کی مدت ہونے پوری میں صرف سات مہینے باقی رہ گئے ہیں، حکومت اور اپوزیشن کو چاہیے کہ اس عرصے میں اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کر اپنی توانائی عوام کو ریلیف دینے پر خرچ کریں۔