پاکستان کی معاشی صورتِ حال اور عالمی بنک کی رپورٹ
عالمی بنک نے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے اور ملک میں 24.5 فیصد مہنگائی کی شرح 1970ء کی دہائی کے بعد بلند ترین سطح پر ہے۔ عالمی بنک نے عالمی معاشی اثرات سے متعلق رپورٹ میں کہا ہے کہ یوکرائن روس جنگ سمیت کئی وجوہات کے باعث عالمی معیشت کو سُست روی کا سامنا ہے۔ سیلاب کے باعث موجود ہ مالی سال پاکستان کی معاشی شرح نمو 2 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ اس سے پہلے عالمی بنک نے پاکستان کے لیے 4 فیصد جی ڈی پی گروتھ کی پیش گوئی کی تھی۔ عالمی بنک کے مطابق پاکستان کو مشکل معاشی حالات کا سامنا ہے۔ حالیہ بدترین سیلاب اور سیاسی بے یقینی پاکستان کے مشکل معاشی حالات کی بڑی وجوہات ہیں۔ پاکستان کو بیرونی قرض کی ادائیگیوں کے شدید خطرات کا سامنا ہے۔ پاکستان میں سیلاب کے باعث جی ڈی پی کو 4.8 فیصد کے مساوی نقصان پہنچا۔ جون سے دسمبر تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 14 فیصد گر چکی ہے۔ موسمیاتی شدت، خوراک اور ضروری اشیاء کی سپلائی کو متاثر کر سکتی ہے۔ انفراسٹرکچر اور زرعی پیداوار کو بھی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اس دوران کنٹری رِسک پریمیئم میں 15 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ گلوبل اکنامک پروسپیکٹ رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 2023ء میں عالمی شرحِ نمو 1.7 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
اقتصادی لحاظ سے پاکستان میں آج جس قسم کی صورتِ حال ہے اس پر ایک عام آدمی سے لے کر ماہرینِ معاشیات و عمرانیات تک سب متفکر اور پریشان ہیں۔ عالمی کساد بازاری، روس یوکرائن جنگ اور اس کے نتیجے میں لگائی جانے والی پابندیوں کے باعث دنیا کے بہت سے ممالک معاشی طور پر مسائل میں گھرے دکھائی دیتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ توانائی کا بحران صورتِ حال کو مزید گھمبیر بنانے کا سبب بنا ہے۔ پاکستان اس لحاظ سے زیادہ بدقسمت قرار دیا جا سکتا ہے کہ اسے عالمی سطح پر ہونے والے واقعات کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر سیلاب نے جس تباہی سے دوچار کیا ہے اس سے اس کی معیشت کو ناقابلِ تلافی دھچکا لگا ہے۔ پھر ملک کی داخلہ پالیسیوں، معاشی ماہرین کی ناقص منصوبہ بندی، غیر حقیقت پسندانہ تجزیے اور غلط فیصلوں نے قوم کو بدترین حالات سے دوچار کر دیا ہے لیکن سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہمارے اہل حل و عقد اس صورتِ حال کا ادراک و احساس کرنے کے بجائے ملک کے اندر سیاست سیاست کھیل رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین کو ملکی معیشت کی کوئی پروا نہیں ہے ان کو اپنے مفادات ہی مقدم اور عزیز ہیں۔ اخبارات سیاسی محاذ آرائی ، طعن و تشنیع سے آلودہ بیانات اور غیر سنجیدہ نوعیت کی سرگرمیوں کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس عوام بدترین مالی بدحالی کا شکار ہیں۔ مہنگائی نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ بجلی ، گیس، پانی سے لے کر اشیائے خوردونوش تک کوئی بھی چیز ایسی نہیں جس کے دام کئی سو گنا تک نہ بڑھے ہوں۔ مرغی کا گوشت 600/- روپے فی کلو اور انڈے 285/- روپے فی درجن کی حدوں کو چُھو رہے ہیں۔ آٹا عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو چکا ہے۔ ان حالات میں بظاہر ملک ڈیفالٹ نہ ہونے کی سرکاری طور پر طفل تسلیاں کیا حیثیت رکھتی ہیں۔ جب عام آدمی کے لیے زندہ رہنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو چکا ہے تو یہ ملکی معیشت کا دیوالیہ نکلنے کے ہی مصداق ہے۔ اب زندہ درگور عوام کے لیے زندہ رہنے میں کیا کشش باقی رہ گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ سیلاب کی صورت میں جو عذابِ الٰہی اس ملک پر نازل ہوا ہے وہ موسمیاتی تبدیلیوں کا ناگزیر نتیجہ ہے لیکن اس میں ہماری کوتاہیوں، عاقبت نااندیشیوں اور لاپروائی کا بڑا عمل دخل ہے۔ سیلابی پانی سے جو مالی اور جانی نقصان ہوا ہے اس کا پوری طرح ازالہ تو ممکن نہیں ہے لیکن اس سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں ان سے نمٹنے کے لیے البتہ حکومت ضرور متحرک ہوئی ہے۔ چنانچہ دنیا نے بھی ہماری کسمپرسی اور بے بسی کا احساس کرتے ہوئے ہماری مدد کے لیے جس فراخدلی سے دستِ تعاون بڑھایا ہے وہ قابل ِ تعریف ہے۔ گزشتہ دنوں سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں ہونے والی کانفرنس اور اس سے پہلے عالمی ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے ہونے والی ڈیوس کانفرنس میں امیر اور ترقی یافتہ ممالک نے پاکستان کی امداد و اعانت کا بھرپور مظاہرہ کیا اس ضمن میں سیکرٹری جنرل اقوامِ متحدہ انتونیو گوئتریس کا کردار سب سے زیادہ لائقِ ستائش رہا ہے۔ جنہوں نے اقوامِ عالم کی توجہ پاکستان کی موجودہ ابتر معاشی صورتِ حال کی جانب مبذول کرواتے ہوئے بھرپور امداد و تعاون کی اپیل کی۔ چنانچہ ان کی کاوشوں کے نتیجے میں پاکستان کو 10 ارب ڈالر سے زائد کی مالی امداد دینے پر بیشتر ممالک اور مالیاتی اداروں نے آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ یہ امداد البتہ فوری طور پر ہمیں نہیں ملے گی۔ کیونکہ اس میں پاکستان کی طرف سے اپنے حصے کی رقم بھی شامل کرنے کا وعدہ لیا گیا ہے۔ سو پاکستان اپنا حصہ اس میں کس طرح اور کیونکر شامل کرتا ہے یہ وہ سوال ہے جو بہرحال جواب طلب ہے۔لہٰذا ہمارے حکومتی زعما کو عالمی اداروں اور خوشحال ممالک کی طرف سے ملنے والی امداد پر فخر و انبساط کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے اپنے حصے کی شمع بھی جلانا ہو گی۔
عالمی بنک کی رپورٹ میں جس صورتِ حال کی نشاندہی کی گئی ہے وہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جس میں آنے والے دور کی تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ محض پیش گوئی ہی نہیں ایک انتباہ بھی ہے جس کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہمارے ماہرینِ اقتصادیات اور پالیسی ساز ادارے سرجوڑ کر بیٹھیں اور ملک کو اس بدترین معاشی صورتِ حال سے نکالنے کے لیے قابل ِ عمل حل تجویز کریں ۔ پاکستان کے عوام جس مہنگائی اور گرانی کے باعث زندہ درگور ہو چکے اب ان پر مزید بوجھ ڈالنا ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مترادف ہو گا۔ چنانچہ جس خوفناک مہنگائی کی آئندہ برسوں کے لیے پیشگوئی کی گئی ہے اس سے بچنے کے لیے ایسی عوام دوست پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جن پر عمل کے نتیجے میں عام آدمی پر کوئی مزید مالی بوجھ پڑنے کی بجائے اسے وسائل رکھنے والے طبقات کی طرف منتقل کر دیا جائے۔ بصورتِ دیگر حالات قابو سے باہر بھی ہو سکتے ہیں۔ ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق بھوکے اور افلاس زدہ محروم طبقات حکمران اشرافیہ اور وسائل یافتہ طبقات کی مزاحمت کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت کا انتظار کیے بغیر ہمیں اصلاح ِ احوال کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔