• news
  • image

2023ء: عوام کی امیدیں اور توقعات 

پاکستانی قوم کو ہمیشہ سے ہی یہ توقع اور اُمید رہی ہے کوئی ایسا حکمران آئے جو قیامِ پاکستان کے بنیادی مقاصد کے حصول کی طرف قدم بڑھائے اور یہاں پر اسلامی نظام کا نفاذ ہو، عدل و انصاف پر مبنی صاف ستھرا اور پُرامن معاشرہ تشکیل پائے۔ اتحاد و اتفاق، محبت و اخوت رواداری و بھلائی، احساسِ ذمہ داری، وطن سے محبت اور ایثار و قربانی کی فضا قائم ہو۔ قوم کی یہ دلی خواہش اور آرزو بھی ہے کہ ہم اپنی محنت، ہمت ، بہترین منصوبہ بندی اور وسائل سے بھرپور استفادہ کر کے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں سر اٹھا کر کھڑے ہوں اور اپنے روایتی ’’کشکول گدائی‘‘ کو توڑ کر اپنے قدرتی اور انسانی وسائل کو بروئے کار لا کر جلد خود کفالت کی منزل حاصل کریں جو خودداری اور خود مختاری کی ہمیشہ سے ہی ضامن ہوتی ہے لیکن کیا کیا جائے اس ملک کے حکمرانوں کا کہ جنہوں نے قدرت کے عطا کردہ خزانوں سے استفادہ کرنے کی بجائے ملک کو ہمیشہ قرضوں کے سہارے چلا کر ملک و قوم کو عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے ’’غلام‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے۔ ’’اقتدار کی کرسی‘‘ پر بیٹھنے والا ہر حکمران یہ بلند و بانگ دعوے ضرور کرتا ہے کہ ہم جلد ہی عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے باہر نکل آئیں گے لیکن عملاً انہوں نے ہمیشہ ملک کو مزید ’’قرضوں کی دلدل‘‘ میں پھنسایا ہے قوم موجودہ حکمرانوں سے یہ توقع رکھتی تھی کہ وہ اپنے وعدوں کا پاس کرتے ہوئے ’’مانگے تانگے کی دولت‘‘ سے ملک کو چلانے سے گریز کرینگے لیکن افسوس صد افسوس کہ انکے وعدے عملی قالب میں نہیں ڈھل سکے۔ ایسی صورتحال میں 2022 ء کی طرح 2023ء میں بھی ملک میں معاشی اور سیاسی بحران مزید تقویت پکڑ لے گا۔ پاکستانی قوم یہ توقع لگائے بیٹھی ہے کہ نہ جانے کب ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ وہ اپنے باہمی اختلافات کو ختم کر کے ملک کو بحرانوں سے نکالنے اور شاہراہ ترقی پر گامزن کرنے کیلئے متحد ہو جائیں۔ 
ہمارے سیاستدان ویسے تو ہر دم جمہوریت جمہوریت کے نعرے لگاتے ہیں لیکن عملاً ان کا ہر قدم اور ہر سوچ آمرانہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے جمہوریت کے بنیادی ستون ’’بلدیاتی اداروں‘‘ کا ’’حشر نشر‘‘ اسکی زندہ مثال ہے۔ عوام ماضی کے تلخ تجربوں کے باوجود یہ اُمید رکھتے ہیں کہ پورے ملک میں بلدیاتی نظام ’’جمہوری تقاضوں کے عین مطابق بحال ہو گا اور گلی محلے کی سطح کے عوامی مسائل بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے جلد حل ہو سکیں گے۔ 2022ء کے دوران جہاں ملک کی معیشت تباہ ہوئی وہاں معیشت کے اہم شعبے بشمول زراعت، صنعت، تجارت، سرمایہ کاری، ماحولیاتی تبدیلی بُری طرح متاثر ہوئے، ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں کمی ہوئی، شرح نمو میں کمی، قرضوں کے حجم میں اضافہ، ڈالر بے قابو، شرح سود کا گراف اوپر برآمدات کا گراف نیچے اور گردشی قرضوں کا گراف مسلسل اوپر کی طرح رواں دواں رہا۔ ترسیلاب زر میں مسلسل کمی سے زرمبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ کمی سے ملک کی معیشت پر چھائے سیاہ بادل مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم عملاً ڈیفالٹ ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں جس سے پوری قوم میں گہری تشویش کا پایا جانا قدرتی امر ہے۔ 2023ء کے دوران سب کی یہی اُمید ہے اور توقع ہے کہ قوم متحد ہو کر اس خطرے کا مقابلہ کرے، قوم کا ہر فرد اپنے فرائض پوری محنت اور ایمانداری کے ساتھ ادا کرے، حکمران بھی اپنے اخراجات اور مراعات کو کم کریں، ملک کی معیشت کو بحران سے نکالنے کیلئے ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی کریں۔
 ملک میں نئی سرمایہ کاری لانے کیلئے قابلِ عمل پالیسیاں ترتیب دیں۔ غیر ملکی مصنوعات کی منڈی بننے کی بجائے اپنے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو مضبوط کریں اور ترقی دیں۔ 2023ء کے دوران توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کریں۔ تیل اور گیس کے نئے نئے ذخائر دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ تھر کے کوئلے کے ذخائر ریکوڈک اور سینڈک کی چھپی ہوئی دولت کو ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کیلئے استعمال کرنے کیلئے ہرممکن اقدامات کریں اور ملک سے بے روزگاری ، مہنگائی، کرپشن اور دہشت گردی ختم کرنے کیلئے متحدہ کوششیں ہوں۔ توانائی اور آبپاشی کے بڑھتے ہوئے بحرانوں پر قابو پانے کیلئے اتفاق رائے سے نئے نئے ڈیم تعمیر ہوں، زرخیز زمینوں پر رہائشی سکیمیں بنانے پر پابندی ہو اور بنجر، بے آباد زمینوں کو زیرِ کاشت لانے کیلئے قابلِ عمل اقدامات کئے جائیں، پاکستان کے ہر شہری کو سستا انصاف ملے اور زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں میسر آئیں۔ عوام بجا طور پر اس بات کی بھی توقع رکھتے ہیںکہ ملک کے دفاع کو مضبوط سے مضبوط بنانے اور ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کیلئے قوم کا ہر فرد اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرے۔ خاص طور پر قوم کے نوجوانوں کو بے روزگاری کے عذاب سے نکال کر انکی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے جامع اور قابلِ عمل پالیسیاں تشکیل دی جائیں۔ ملک کے ہر شعبے سے مالی اور انتظامی کمزوریوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ فضول خرچی کا بھی سدباب کیا جائے۔ عوام کو بھی فضول خرچی ترک کر کے بچت کی عادت اپنانی ہو گی۔ ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کیلئے جہاں فرقہ واریت، علاقائی تعصب، منافرت، انتشار، کرپشن اور دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے وہاں سیاسی استحکام، قومی یک جہتی اور جذبہ تعمیر وطن کی بھی بے حد اہمیت ہے۔ اس بات کو سب تسلیم کرتے ہیں ’’غذائی خودکفالت‘‘ سے ملک کی ’’عزت اور وقار‘‘ میں اضافہ ہوتا ہے لیکن ہم عرصہ دراز سے غذائی بحران کا شکار ہیں۔حکومت کی ناقص پالیسیوں اور عدم توجہی کی وجہ سے ’’زراعت اور کاشتکار‘‘ دونوں ہی مشکلات کا شکار ہیں۔ ہماری زرعی شعبے کی مجموعی پیداوار اور فی ایکڑ پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے اسی وجہ سے ہماری زرعی شعبے کی درآمدات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ 2023ء کے دوران عوام کو یہی امید اور توقع ہے کہ ہم ہر شعبے میں ترقی اور خودکفالت حاصل کرنے کیلئے متحد ہو کر جدوجہد کرینگے۔ ہم اپنے وسائل پر بھروسہ کرتے ہوئے مزید قرضے حاصل کرنے سے اجتناب کرینگے بلکہ موجودہ قرضوں کا حجم کم کرنے کیلئے فوری اقدامات کرینگے۔ 
 پاکستانی عوام کو امید ہے کہ 2023ء کے دوران ہم سب اپنی اپنی سابقہ کوتاہیوں، کمزوریوں اور ناکامیوں کا ازالہ کرینگے اور ذاتی مفادات کے حصول کی عادت ترک کر دیں گے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن