قومی سلامتی کے مسائل
قوموں کی بقاء کیلئے قومی سلامتی کا دفاع ایک لازمی امر ہے، دنیا کے ہرملک کو مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کیلئے ہر ملک تمام ممکن کوششیں بروئے کار لانے کی کوشش کرتاہے، یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ قومی سلامتی کے مسائل ہر ملک کو درپیش نہیں ہوتے بالخصوص جس کا تعلق بیرونی خطرات سے ہو، یہ محل وقوع بین الاقوامی تعلقات، معاشرتی ڈھانچے کی نوعیت اور اہمیت کے حامل قدرتی مسائل سے منسلک ہوتے ہیں۔ ملکی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کیلئے ہر ملک نے کم وبیش سیکورٹی فورسز کا بندوبست کیا ہوتاہے جن کی تعداد حالات کے مطابق کم یا زیادہ ہوسکتی ہے، کوئی ملک بھی قومی سلامتی کے معاملات سمجھوتہ نہیں کرسکتا کیونکہ ایسا کرنے کا مطلب قومی بقاء پر سودا کرنے کے مترادف ہوسکتاہے، پاکستان اپنے معروضی حالات اور محل وقوع کی بنیاد پر ایک انتہائی اہم خطے میں واقع ہے جہاں بین الاقوامی طاقتوں کے اپنے اپنے مفادات منسلک ہیں، اسکے علاوہ پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت بھی ہے جو بہت سی عالمی اور علاقائی طاقتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی، پاکستان کے مشرق میں ہندوستان واقع ہے جس کی روز اول سے کوشش ہے کہ وہ ہمیں نقصان پہنچائے، دونوں ممالک کے مابین اب تک کم ازکم تین براہ راست جنگیں بھی ہوچکی ہیں، پاکستان کا مغربی ہمسایہ افغانستان بھی ہمارے لئے عدم ستحکام کا باعث رہاہے، وہاں کے معروضی حالات ہمارے لئے سلامتی کے سنگین مسائل کا موجب بنتے رہتے ہیں اور آج بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ اسکے علاوہ ہمارے اندرونی حالات بھی قومی سلامتی کیلئے سنگین چیلنجز کا باعث ہیں ۔
70ء کی دہائی کے اواخرسے آج تک افغانستان مسلسل خانہ جنگی اور غیرملکی جارحیت کا شکار رہاہے جس کا براہ راست اثر پاکستان پرپڑرہاہے، آج بھی تیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین پاکستان میں رہ رہے ہیں جوکہ دنیا کے کسی بھی ملک میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد ہے، پہلے روسی جارحیت اور اسکے بعد 2001ء میں امریکی حملے کے بعد افغانستان میں ہونیوالی تباہی کے براہ راست اثرات پاکستان کو برداشت کرنے پڑے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مہلک اور خطرناک اثر دہشت گردی کی صورت میں پاکستان پر پڑاہے، گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ نے ہمارے ملک کے ہرشعبے کو بری طرح متاثرکیاہے، پچاس ہزارکے قریب پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں جبکہ ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں، اسکے علاوہ پاکستانی معیشت کو پانچ سو ارب ڈالر سے زیادہ نقصان ہواہے، دنیا کے کسی ملک کو بھی اتنی بڑی قیمت نہیں چکانی پڑی ہے، پاکستانی فوج نے دوسرے قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور پاکستانی عوام کی تائیدوحمایت کے ساتھ دہشت گردی کیخلاف یہ جنگ بہت بہادری سے لڑی اور اس میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اب چند ماہ سے پھر دہشت گرد سراٹھانے لگے ہیں جن کا صفایا کرنا بہت ضروری ہے اس سے پہلے یہ ناسور پھر سے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لے۔
بلوچستان کا صوبہ بھی گزشتہ دو دہائیوں سے شورش کا شکارہے جن کی بہت سی وجوہات ہیں جنہیں دور کرنے کی اشد ضرورت ہے، بلوچ علیحدگی پسند دہشتگرد گروہوں کی ہر طرح سے ہندوستان معاونت کررہاہے جن کے ناقابل تردید ثبوت پاکستان بارہابین الاقوامی برادری کے ساتھ شیئر کرچکاہے۔ کلبھوشن یادیو جیسے جاسوس کا اپنے نیٹ ورک سمیت پکڑے جانا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، انہوں نے بلوچستان میں سیکورٹی فورسز پر حملوں میں پھر سے اضافہ دیکھنے میں آرہاہے، جس میں ہندوستان کا براہ راست ہاتھ ہے اسکے علاوہ یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے درمیان بھی اس بارے میں ہم آہنگی ہے چونکہ دونوں کا براہ راست ہینڈلر ہندوستان ہے اس لئے ان اطلاعات کو یکسر نظرانداز بھی نہیں کیاجاسکتا۔ قومی سلامتی کیلئے بلوچستان کا مسئلہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ اسی کے ساتھ جڑا ہوا خطرہ ملک میں جاری سنگین سیاسی محاذ آرائی اور عدم استحکام کی صورتحال ہے جس کی وجہ سے عام آدمی سخت پریشان ہے، یہ صورتحال نہ صرف لوگوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں شدید مایوسی کا شکار کررہی ہے بلکہ حکومت کیلئے فیصلہ سازی میں بھی شدید مشکلات پیدا کررہی ہے معاشی خرابی کی ایک بنیادی وجہ یہی اندرونی صورتحال ہے۔
آج پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز جن میں حکومت، قومی سلامتی کے ادارے، عدلیہ، میڈیا اور سیاسی جماعتیں شامل ہیں ایک متفقہ لائحہ عمل ترتیب دیں اورپھر یقینی بنائیں کہ اس پر عمل بھی ہو، یہ مسائل کسی ایک حکومت یا سیاسی جماعت کے نہیں بلکہ ریاست پاکستان کے ہیں جن کا براہ راست تعق ہماری بقاء اور سلامتی کیساتھ منسلک ہے، اگر سیاسی ہنگامہ آرائی اسی طرح جاری رہی تو اسکا نقصان سب کوہوگا اور کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ آج میثاق معیشت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کیونکہ اس پر کسی طرح کی سیاست کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے عوام کو اکسانا اور اشتعال دلانا ملک دشمنی کے مترادف ہے، ہرکسی کو اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے برداشت ،تحمل، بردباری اور معاملہ فہمی سے کام لینے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو درپیش خطرات کا مقابلہ کیاجاسکے جوصرف اتحاد اوراتفاق سے ہی ممکن ہے۔ دشمن ہمیں تقسیم کررہاہے اورہم اسکے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اس گھنائونی سازش کو اکٹھے مل کر ہی ناکام بنایاجاسکتاہے۔