جمعۃ المبارک،20 جمادی الثانی 1444ھ، 13 جنوری 2023ء
شہباز، بلاول پاکستان کے لیے گداگری کر رہے ہیں فخر ہونا چاہیے۔ چودھری شجاعت
چودھری شجاعت کے اس بیان سے پتا چلتا ہے کہ ان کے دل میں وطن سے کتنی محبت ہے۔ جس بات کو مخالفین عار سمجھتے ہیں وہ اس کو اعزاز گردانتے ہیں۔ ان کا یہ بیانیہ عوام میں پسند کیا جا رہاہے۔ ملک و قوم کے لیے اگر بھیک بھی مانگنی پڑے تو بلاشبہ یہ اعزاز ہے۔ وطن ملک و قوم سے بڑھ کر نہ تو کسی کی عزت ہے نہ احترام۔ بلاشبہ اگر کوئی کسی چوک چوراہے پر کھڑا ہو کر بھی ملک کے لیے بھیک مانگے وہ فخر کی بات ہے۔ چودھری شجاعت نے شہباز شریف اور بلاول زرداری کے لیے فقیر کا لفظ استعمال کرنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اس سے ان کی سیاسی تربیت کا رکھ رکھائو اور خاندانی ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔ افسوس اب ایسے وضع دار اور اچھی روایات کے امین سیاست میں چند ایک ہی رہ گئے ہیں سچ کہیں تو شاید وضع دار سیاستدانوں کی آخری نشانی چودھری شجاعت ہی رہ گئے ہیں باقی سب یا تو اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں یا پھر حوادث زمانے کی نظر ہو کر وضع داری کھو چکے ہیں۔ اس وقت سیاسی میدان میں جس بدتہذیبی و بدزبانی کو عروج حاصل ہے اس پر تو عام لوگ بھی پریشان ہیں کہ یہ ناروا طرز عمل ہمیں کہاں لے جائے گا۔ لوگ تو اب اپنے بچوں کو سیاستدانوں کی تقاریر اور ٹاک شوز دیکھنے سے منع کرتے ہیں کہ کہیں ان کی زبان بھی نہ بگڑ جائے۔ پہلے بھی سیاسی اختلافات ہوتے تھے مگر تہذیب کے دائرے میں رہ کر اس پر بات ہوتی تھی۔ بھٹو مرحوم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مخالفین کو طنزیہ ناموں سے پکارتے تھے۔ مگر اس وقت جو لب و لہجہ استعمال ہو رہا ہے۔ اس پر تو یہی کہا جا سکتا ہے
’’تمہارا لہجہ بتا رہا ہے تمہاری دولت نئی نئی ہے‘‘
اب نو دولتیوں سے وضع داری کی توقع رکھنا بھی تو عبث ہی ہے۔
٭٭٭٭
ترین کا طیارہ ایک بار پھر پرواز کرنے لگا
جی ہاں اس طرح تو ہونا ہی تھا۔ اب جہانگیر ترین اور علی ترین کے راستے سے کانٹے صاف ہو رہے ہیں اور ان کے اچھے دنوں کی شروعات ہے۔ ان کے دستر خوان سے فیض اٹھانے والے لاکھ ان کی برائیاں کریں مگر یہ بات سب جانتے ہیں کہ سو سُنار دی تے اک لوہار دی۔ پی ٹی آئی کو عروج حاصل ہوا اس میں جہانگیر ترین کی دولت اور ان کے طیارے کی خدمات سرفہرست ہیں۔ خود عمران خان نے سیاسی زندگی کا بڑا حصہ انہی کے اے ٹی ایم کو اور ان کے طیارے کو استعمال کرتے بسر کیا۔ خاص طور پر جہانگیر ترین اور ان کے طیارے سے تو خان صاحب دھرتی پر پائوں ہی نہیں رکھتے تھے۔ ہر وقت ہوائوں میں اڈی اڈی جاتے تھے۔ ان خبروں کے مطابق یہ طیارہ جو سیاستدانوں کے لیے ’’ہما‘‘ ثابت ہوا ہے۔ ایک بار پھر محوپرواز ہونے لگا ہے۔ دیکھتے ہیں اب یہ کس کس کے سر سے گزرتا ہے اور اسے تاج پہناتا ہے۔ گزشتہ روز اس طیارے کی پرواز کا رخ پی ٹی آئی نہیں مسلم لیگ (نون) کی طرف تھا اس پرواز کے بعد جہانگیر ترین نے عون چودھری یعنی عمران خان کے سابق دستِ راست کے ہمراہ وزیر اعظم کے بیٹے سلمان شہباز سے ملاقات کی اور سیاسی صورتحال پر بات چیت کی اس موقع پر سلمان شہباز نے اپنے والد کا خصوصی پیغام جہانگیر ترین تک پہنچایا۔ اب دیکھتے ہیں یہ گرم جوش ملاقاتیں کیا رنگ لاتی ہیں۔ ان سے البتہ پی ٹی آئی والوں کی صفوں میں پریشانی ضرور نظر آ رہی ہے جن کی دوسری اے ٹی ایم مشین یعنی علیم خان بھی اس وقت بند اور ناقابل استعمال ہے۔
٭٭٭٭
ایودھیا اترپردیش جیل سے 98 سالہ معمر قیدی کی رہائی پر الوداعی تقریب
اس قیدی کی بدنصیبی یہ ہے کہ اسے لینے تک کوئی نہیں آیا پھر جیل سپرنٹنڈنٹ نے انہیں اپنی کار میں بٹھا کر ان کے گھر پہنچایا۔ اس حسن سلوک کے بعد اپنی خوبصورت رہائی کی الوداعی تقریب دیکھ کر تو یہ بابا بھی
قید مانگی تھی رہائی تو نہیں مانگی تھی
کہتے ہوئے دوسروں کی محبت اور اپنوں کی بے حسی کا شکوہ خود سے ہی کر رہے ہوں گے کہ رہائی کی اطلاع ملنے کے باوجود ان کے گھر والوں سے کوئی انہیں لینے نہ آیا۔ جیل والوں نے البتہ ان کی الوداعی تقریب میں انہیں پھولوں کے ہار پہنائے اور بڑے چاہ سے یوں رخصت کیا جیسے کسی اچھے آفیسر کو محکمے والے بڑی چاہت سے الوداع کہتے ہیں۔ اس پر
مری نمازِ جنازہ پڑھائی غیروں نے
مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے
والا شعر بے اختیار یاد آتا ہے کیونکہ ایسا ہی اس بزرگ قیدی کے ساتھ بھی ہوا۔ اب معلوم نہیں اس کے گھر والے اس کے ساتھ کیا برتائو کرتے ہیں۔ گھر والی کا علم نہیں وہ ہے یا نہیں اگر وہ ہوتی وہ ضرور اپنے گھر والے کی آمد پر ان کی آرتی اتارتی اور چرن چھوتی۔ باقی کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ انہوں نے کیسا استقبال کیا ہو گا ایک بوڑھے قیدی کا۔ ان کی بیٹیوں اور بیٹوں پر منحصر ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔
٭٭٭٭
خواتین سے چھیڑ چھاڑ پر گلوکار کیفی خلیل تقریب چھوڑ کر چلے گئے
آج کل سوشل میڈیا پر ایک بلوچ نوجوان گلوکار کیفی خلیل کے بڑے چرچے ہیں یہ نازک اندام خوش گلو نوجوان جب گنگناتا ہے تو اس کے گلے سے سُر پھوٹتے محسوس ہوتے ہیں۔ ایسی وجیہ آواز سنائی دیتی ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی جی چاہتا ہے کہ کچھ دیر کے لیے رک کر اسے سُنا جائے۔ نہایت مختصر عرصے میں اس نوجوان کے کئی گیت مقبول ہوئے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے اگر سوز دل ساز کے ساتھ مل جائے تو پھر دوآتشہ ہو جاتا ہے۔ سو یہی کچھ کیفی خلیل کے لیے کہا جا سکتا ہے۔ خدا جانے ایسا کونسا درد اس کے پہلو میں نشتر بن کر پیوست ہے کہ وہ نہایت درد میں ڈوب کر جب غزل یا نظم چھیڑتا ہے تو اس وقت حقیقت میں
سو خنجر تھے پیوست گلو جب ہم نے شوق کی لے چھیڑی
سو تیر ترازو تھے دل میں جب ہم نے رقص آغاز کیا
تو صاحبو ان تمام باتوں کے ساتھ یہ نوجوان گلوکار صاحب دل بھی ہیں ۔ کراچی میں اب انہیں عام طور پر تمام بڑی بڑی موسیقی کی تقریبات میں بلایا جاتا ہے، جہاں نغمہ سرا ہوتے ہیں۔ ایسی ہی ایک تقریب گزشتہ دنوں بھی ہوئی جہاں لوگوں کا جم غفیر تھا۔ ایسے میں جب اس گلوکار نے دیکھا کہ منتظمین لاپرواہ ہیں اور کچھ نوجوان خواتین کو تنگ کر رہے ہیں تو اس نے تقریب میں پرفارمنس سے انکار کر دیا اور تقریب سے اُٹھ کر واپس چلے گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے اس کا دل اور دماغ ابھی لچر پن سے پاک ہے اگر ہمارے باقی فنکار بھی ایسی ہی راہ اختیار کریں تو تقریب کے منتظمین ازخود ایسی غیر اخلاقی حرکت کرنے والوں کے مزاج درست کر سکتے ہیں۔ اس اچھے کام پر ہم کیفی خلیل کو داد دیتے ہیں۔
٭٭٭٭