• news
  • image

امن و امان کا قیام سب سے اہم ہے!!!!!!


خبر ہے کہ قومی سلامتی کے اداروں نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے شدید سکیورٹی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو پندرہ جنوری کا انتخابی مرحلہ ملتوی کرنے کی سفارش کر دی ہے۔ اس خبر میں بلدیاتی انتخابات سے کہیں زیادہ اہم امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے خدشات ہیں۔ ملک میں کوئی بھی سیاسی سرگرمی یا کوئی بھی دوسرا عمل امن و امان کے قیام سے زیادہ اہم نہیں ہے اگر ہم گذری ہوئی دو دہائیوں پر نظر دوڑائیں تو ملک کو سب سے زیادہ نقصان امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے ہوا ہے۔ دہشت گردوں کی کارروائیوں کی وجہ سے ملک میں خوف کی فضا تھی۔ پاکستان میں بین الاقوامی کھیلوں کی سرگرمیاں معطل تھیں اور ان سرگرمیوں کی معطلی کی وجہ سے پاکستان بین الاقوامی سطح پر تنہا نظر آتا رہا۔ دہشت گردوں نے نہتے پاکستانیوں کو نشانہ بنایاز سرکیں خون سے رنگین ہوئیں، ماؤں کے لخت جگر قربان ہوئے، بچوں سے والد کا سایہ اٹھا، بہنوں کے بھائی بچھڑ گئے۔ پورے کے پورے خاندان دہشت گردوں کی سفاکانہ کارروائیوں کی نذر ہوئے۔ ملک کو کھربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ برسوں کی محنت اور قربانیوں کے بعد ملک میں امن بحال ہوا ہے۔ اب ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے، معیشت کی تو کسی کو فکر ہی نہیں ہے ان حالات میں امن و امان کے معاملے میں بھی حکومت کی گرفت کمزور ہوتی نظر آ رہی ہے۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ امن و امان کی صورتحال کے پیشِ نظر گذشتہ روز کراچی میں حساس اداروں کے اجلاس کے بعد صوبائی الیکشن کمیشن کے حکام کو سندھ میں بلدیاتی انتخابات کیلئے سکیورٹی خدشات پر بریفنگ دیتے ہوئے پندرہ جنوری کو بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی سفارش کی۔ حساس اداروں کے اجلاس میں گذرے چالیس پینتالیس روز کے دوران کراچی سمیت سندھ میں سترہ سکیورٹی تھریٹس پر بھی غور و خوض کیا گیا ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ کراچی میں کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور  تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے نیٹ ورک موجود ہیں۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہے۔ صوبائی حکومتوں کو سیاسی جھگڑوں سے نکل کر ملک میں امن و امان قائم رکھنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بی ایل اے اور ٹی ٹی پی ہے حوالے سے ناصرف بھرپور حکمت عملی بلکہ ہر قت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ خیبر پختونخوا میں ایسی کارروائیوں کے بعد سے صوبائی حکومتوں کو غیر معمولی انداز سے متحرک ہو جانا چاہیے تھا لیکن سیاست دانوں کے پاس شاید اس حوالے سے سوچنے کا کوئی وقت ہی نہیں ہے۔ اب بلدیاتی انتخابات میں حالات کی خرابی کا خدشہ موجود ہے تو پھر عام انتخابات میں تو دشمن زیادہ شدت اور بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ حرکت میں آ سکتا ہے۔ سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی خواہش تو ضرور رکھتی ہیں لیکن انتخابات امن و امان کو داؤ پر لگا کر کسی صورت کوئی بھی سیاسی سرگرمی بھلے وہ انتخابات ہیں کیوں نہ ہوں یہ خطرہ مول نہیں کیا جا سکتا۔ معیشت پہلے ہی کمزور ہو چکی ہے امن و امان خراب ہوا تو بیرونی سرمایہ کاری بھی رک جائے گی، دنیا ایک مرتبہ پھر پاکستان سے دور ہو جائے گی، عالمی سطح پر پاکستان ایک مرتبہ پھر تنہائی کا شکار ہو جائے گا۔ بالخصوص کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں میں تعطل سے ہونے والے نقصان کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا۔ بھارت کو دیکھ لیں وہاں کتنی بڑی تعداد میں کھیل اور ثقافتی سرگرمیاں ہوتی ہیں، دنیا بھر سے لوگ وہاں آتے ہیں، دنیا کے بڑے ممالک کی وہاں تجارتی دلچسپیاں ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ بیرونی دنیا سے کھیل اور ثقافت کے ذریعے جڑے رہتے ہیں اور اسی راستے دیگر کام بھی کرتے ہیں۔ کھیل اور ثقافتی سرگرمیوں کے مسلسل انعقاد کے لیے امن و امان کی صورتحال کا برقرار رہنا نہایت اہم ہے۔ اس لیے صوبائی حکومتوں کو بھی ہوش میں آنا چاہیے، وفاقی حکومت بھی مناسب اقدامات کرے، اپوزیشن بھی پاکستان کے وسیع تر مفاد کو دیکھتے ہوئے اپنی سیاسی حکمت پر نظر ثانی کرے۔
دوسری طرف عالمی اقتصادی ادارے ورلڈ اکنامک فورم نے دو ہزار پچیس تک پاکستان کو درپیش دس بڑے خطرات کی نشاندہی کر دی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل رسک رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے کا سامنا ہے، اگلے دو سال تک پاکستان کو خوراک کی کمی ،سائبر سیکیورٹی، مہنگائی اور معاشی بحران کیخطرات درپیش ہوں گے۔ پاکستان کو عدم استحکام کے ساتھ خوارک،قرضوں کے بحران کا سامنا ہے،خطے کے ممالک آبی وسائل کو علاقائی تنازعات میں بطور ہتھیار بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں سیلاب سے آٹھ لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی زمین تباہ ہوئی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل رسک رپورٹ کے مطابق ڈیفالٹ کا سامنا کرنے والے دیگر ممالک میں ارجنٹائن، تیونس، گھانا، کینیا ، مصر ، ترکیہ شامل ہیں۔ کیا یہ رپورٹ بھی ہماری انکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ کیا ہم اب بھی سیاسی لڑائی جھگڑوں میں لگے رہیں گے۔ یہ رپورٹ سیاست دانوں کو سامنے رکھ کر مستقبل کے ممکنہ مسائل کے حوالے سے حکمت عملی تیار کرنا ہو گی۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن