• news

وہی چال بے ڈھنگی


نئی امنگوں، نئی ترنگ، نئے جذبے اور تازہ ولولوں کے ساتھ نیا عیسوی سال2023ءتیزی سے اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔ کچھ لوگ اس سال کو بھی محض ہندسے بدلنے سے تشبیہ دے رہے ہیں اور کچھ کے نزدیک اس سال کی بھی وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے کہتے ہیں کہ خدا بھی کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک خود اس قوم کو اپنی حالت بدلنے کا خیال نہیں آتا کوئی برہمن ہر سال یہی خوشخبری سناتا ہے کہ آنے والا نیا سال بہت اچھا ہو گا۔ کوئی سیاسی پنڈت اور جوتشی اس سال کو الیکشن کا سال قرار دے دیتے ہیں۔ کچھ لوگ تبدیلی کے نعرے لگا رہے ہیں لیکن صورت حال وہی ڈھاک کے تین پات والی ہی ہے، سچ تو یہی ہے کہ کیلنڈر کے محض ہندسے بدلتے ہیں باقی معاملات جوں کے توں ہی رہتے ہیں۔ نہ ہی ہم خود کو بدلتے ہیں اور نہ ہی ہماری فکر و سوچ میں کوئی تبدیلی آ تی ہے ۔
مہنگائی میں اس سال بھی کمی نہ آنے کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں ملک کے معاشی حالات سدھرنے کی بجائے بگڑتے ہی جا رہے ہیں امن و امان کی صورتحال بھی باعث اطمینان نہیں ہے۔ تھانہ کلچر تبدیل ہونے کی بجائے انتظامیہ کرائم کنٹرول کرنے میں ناکام ہے۔ انتظامیہ ، مقننہ اور قانون ساز اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ نئے سال کے آغاز پر حکمرانوں اور سیاست دانوں کی طرف سے ملک کو ترقی سے ہمکنار کرنے کے عزم کے اظہار کے ساتھ ساتھ بلند بانگ دعوے بھی کئے گئے ہیں لیکن قول و فعل کے تضاد کی روایات برقرار رکھتے ہوئے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی۔
کسی بھی شہرکی ٹریفک کو لے لیں بے ڈھنگی اور بے ہنگم ہی نظر آئے گی۔ اوورلوڈنگ ، اوورچارجنگ اور حادثات کی روک تھام کی بجائے ٹریفک کا محکمہ محض اپنا ریونیو بڑھانے اور چالانوں کا ٹارگٹ پورا کرنے میں مصروف نظر آتا ہے۔ ناجائز تجاوزات اور صفائی کے ناقص انتظامات نے شہروں کے حسن کو گہنا کے رکھ دیا ہے۔ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنروں کی فوج ظفر موج کے باوجود کسی بھی شہر میں اونٹ کی کوئی کل سیدھی نظر نہیں دکھائی دیتی۔ قبضہ مافیا اور رسہ گیری کے معاملات آہ و فغاں پر بھی قابو نہیں پایا جا سکا۔ ایسا لگتا ہے جیسے کہیں کوئی رٹ ہی قائم نہیں ہے ہر کوئی شتر بے مہار بنا ہوا ہے۔ ملکی خزانے کا برا حال ہونے کے باوجود وزراءاور مشیروں کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اس سال بھی بے روزگار نوجوان نوکریوں کی آس لگائے بیٹھے ہیں ملک کے تاجر لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ مالیاتی حالات میں بہتری لانے کے لئے حکومت نے مارکیٹیں رات جلد بند کرنے کی جو پالیسی وضع کی ہے اسے نافذ کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔ تاجروں کی اکثریت نے اسے مسترد کر دیا ہے۔حکومتی پالیسیوں میں عوامی مفاد نہ ہونے کی وجہ سے بھی عوام حکومت سے نالاں نظر آتے ہیں گیس اور بجلی کے بحران نے عوام کو مزید پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ ان سب معاملات کی بہتری کیلئے مختلف اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت بھی ضروری ہے کیونکہ بقول شاعر:
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
تمام ملکی معاملات جن میں معیشت سرفہرست ہے کہ بہتری کیلئے معاملات کو ٹھیک کرنا ضروری ہے۔ ایک عرصے سے جاری اس بے ڈھنگی چال کی بہتری کیلئے بھی سب کو مل جل کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ بحیثیت مجموعی ہمارے عوام کو بھی ایک بھیڑ اور بے ہنگم گروہ کی بجائے ایک قوم کی حیثیت سے منظم ہونا ہو گا اور ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں کو بھی اسں ملک اور سیاست کی بے ڈھنگی چال کا ڈھب صحیح کرنے کیلئے ٹھوس بنیادوں پر کچھ کرنا ہو گا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو سیاست کو وراثتی بنیادوں پر چلانے کی بجائے ملکی حالات اور وسائل کے مطابق چلانا ہو گا۔ عوام کے مسائل کے حل کیلئے کوئی مربوط حکمت عملی اور منشور سامنے لانا ہو گا۔ نوٹوں کی سیاست کی بجائے ووٹوں کو اہمیت دینا ہو گی پھر ہی ہماری سیاست کی بے ڈھنگی چال کا انداز تبدیل ہو پائے گا اور عوام کی حالت سدھرنے کے کچھ امکانات بھی پیدا ہوں گے۔ کاش اس نئے سال کے دامن میں امید کے کچھ ایسے جگنو اور آ س کی ایسی تتلیاں ہوں کہ ہمارے 75سالہ سفر کے اندھیروں میں روشنی کا کوئی منظر بھی نظر آ ئے ہمارے اداروں کی حالت زار سدھرتی دکھائی دے ملک کو بے لوث محنتی نڈر اور مخلص قیادت میسر ہو اور ہمارے عوام بھی منظم اور باشعور ہونے کا ثبوت دیں پھر ہی ہم ہر سال کے اختتام پر مختلف خساروں سے بچ پائیں گے اور ہماری یہ عرصے سے جاری بے ڈھنگی چال بھی سیدھی ہوتی نظر آ ئے گی۔

ای پیپر-دی نیشن