مولانا سراج الحق اور جماعتِ اسلامی
اکثر لوگ اس مخمصے کا شکار رہتے ہیں کہ مولوی اور مولانا میں کیا فرق ہے۔ عام فہم زبان میں کہا جا سکتا ہے۔ وہی جو ایک سپاہی اور جرنیل میں ہوتا ہے۔ ہر جنرل بنیادی طور پر سپاہی ہوتا ہے لیکن ہر سپاہی جرنیل نہیں ہوتا۔ مولوی کے مغوی معنی ’’شرع اسلامی کے احکام جاننے والا ، عالمِ دین، فقیہ، پکا دین دار، پابندِ شریعت، معلّم، مدرس کے ہیں۔ مولانا، عُلما کا اعزازی خطاب ہے۔ بعض جگہ مولانا سے مراد مولانا جلال الدین رومیؔ ہوتے ہیں۔ (فیروز اللغات) گویا مولانا کہلانے کیلئے مولوی بننا ضروری ہے۔ اس کی وضاحت خود رومیؔ کے اس شعر سے ہو جاتی ہے
مولوی ہرگز نہ شُد مولائے روم
تا غلامِ شمس تبریزی نہ شُد
بات سے بات نکلتی ہے۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ شمس تبریزی کا مزار ملتان میں ہے۔ شمس تبریزی کبھی ملتان نہ آئے۔ وہاں شاہ شمس سبزواری دفن ہیں۔ شمس تبریزی کو حالات نے مہلت ہی نہ دی۔ ’’وحدت الوجود‘‘ کے داعی تھے۔ ابن مریم مردوں کو زندہ کرنے کے لیے قم باذن اللہ‘‘ کہتے تھے۔ یہ جذب کے عالم میں قم باذنی کہہ بیٹھے۔ حاکمِ وقت نے انہیں سُولی پر چڑھا دیا۔ ہر بات کہنے کا ایک سلیقہ ہوتا ہے۔ یہی بات غالب نے کس قدر ہوشیاری سے کہہ دی
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن
ہم کو تقلیدِ تُنک ظرفیِ منصور نہیں
ذکر مولانا سراج الحق اور ان کی جماعت اسلامی کا مقصود تھا۔ محدود کالم میں اضافی باتیں آ ہی جاتی ہیں۔
جماعت اسلامی ملک کی چھوٹی جماعت ہونے کے باوصف ایک منظم جماعت ہے بہدف ’’مائیتھالوجی‘‘ کی طرح پہلے تو اس میں داخل ہونا مشکل ہے۔ بالفرض داخل ہو جائے تو پھر آسانی سے باہر نہیں نکل سکتا۔ ممبر شپ کی شرائط بڑی کڑی ہیں۔ آدمی دیندار ہو ، صوم و صلات کا پابند، راست باز اور راست رو ہو، جھوٹ سے اتنی ہی نفرت کرتا ہو، جتنی آجکل عمران خان اور نواز شریف ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ الغرض آئین کی 62-63 دفعات پر پورا اُترتا ہو۔ وہ کرشماتی دفعات جو ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو طوالت بخشنے کے لیے آئین میں ’’گھسیڑی‘‘ تھیں۔ قیامِ پاکستان سے آج تک اس جماعت کا سفر پُرآشوب رہا ہے۔
مولانا مودودی جب میر کارواں تھے تو انہوں نے اپنے اصولوں کی خاطر بڑی سختیاں جھیلیں۔ جیلیں کاٹیں لیکن انکے پائے استقامت کبھی بھی نہ ڈگمگائے۔ بلاشبہ وہ نہ صرف جیّد عالم دین تھے بلکہ بلند پائے کے ادیب بھی تھے۔ برصغیر میں گنتی کے جو مفکر تھے، ان کا اُن میں شمار ہوتا تھا۔ قائد اور علامہ کے علاوہ تین شخص مشہور ہوئے۔ حُسین احمد مدنی، ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی، حسین احمد مدنی متحدہ ہندوستان کے حامی تھے۔ انہوں نے وطنیت پر ایک ضخیم کتاب لکھی۔ علامہ اقبال سے علمی اور ادبی بحث چلتی رہی ۔ کتاب میں جو کچھ لکھا گیا اس کا جواب تو علامہ نے ایک شعر میں دے دیا۔
قلندر جُز دو حرف لاالہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہہ شہر قاروں ہے لُغت ہائے حجازی کا
مولانا آزاد نے ’’غبارِ خاطر‘‘ لکھی۔ جیل کی کال کوٹھڑی میں‘‘ مشروبِ نشاط انگیز‘‘ بناتے ہوئے فنجان سے جو دودھیا بھاپ نکلی اس نے فکر کو جِلا بخشی اور ذہن کو منور کیا۔ مولانا مودودی تفسیر قرآن لکھ کر امر ہو گئے۔ نہایت سنجیدہ انسان تھے۔ البتہ ایک دفعہ شاعر انقلاب جوش نے انکے ہونٹوں پر ہنسی بکھیر دی۔ انکے گردے میں جب پتھری کا انکشاف ہوا تو جوش کی رگِ ظرافت پھڑکی۔ بولا۔ ’’اللہ انہیں اندر ہی اندر سنگسار کر رہا ہے۔‘‘ مولانا مسکرا کر بولے
’’ہے تو رندِ خرابات لیکن کمبخت غضب کا جملہ باز ہے۔‘‘
باایں ہمہ جماعت کا سیاسی سفر ناکامیوں سے عبارت ہے۔ یہ مرکز یا صوبوں میں کبھی بھی حکومت نہیں بنا پائی۔ عطا اللہ شاہ بخاری کہتے تھے۔ ’’لوگ تقریر میری سنتے ہیں لیکن ووٹ مسلم لیگ کو دیتے ہیں۔‘‘ ان کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ عقل حیران ہوتی ہے کہ 22 کروڑ لوگ جن میں اکثریت باقاعدگی سے نماز پڑھتی ہے ، روزے رکھتی ہے ہر جمعہ کو واعظ کا خطبہ بڑے خشوع و خضوع سنتی ہے ان کو ووٹ کیوں نہیں دیتی؟ دیگر مذہبی جماعتیں بھی ہیں۔ وہ کچھ نہ کچھ حاصل کر لیتی ہیں ان میں اور جماعتِ اسلامی میں ایک بنیادی فرق ہے۔ وہ سیاسی پہلے ہیں اور مذہبی بعد میں جبکہ جماعت مذہبی پہلے ہے اور سیاست بعد میں کرتی ہے۔ جُدا ہوویں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی!۔ الیکشن لڑنے کیلئے فی زمانہ جو وسائل درکار ہیں، وہ انکے پاس نہیں ہیں، جس قسم کے ہتھکنڈے اختیار کرنا پڑتے ہیں وہ انکے بس کا روگ نہیں۔ شاید کرنا بھی نہیں چاہتے۔ انکے مخالفین کہتے ہیں انکی ایمانداری کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہیں کچھ کرنے یا نہ کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ نہ آزمائش میں ڈالے گئے! قاضی حسین احمد جب امیر جماعت تھے تو انکا وہ جملہ بڑا مشہور ہوا :’’ظالموں قاضی آ رہا ہے۔‘‘ یہ الگ بات کہ نہ ظالم ظُلم کرنے سے باز آئے اور نہ قاضی غازی بن سکے! اس وقت بھی انکے پاس گنتی کی چند سیٹیں تھیں۔ اب مولانا سراج الحق اس پارٹی کے سربراہ ہیں۔ انکی ’’آنی جانیاں‘‘ قابلِ دید ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سوتے کب ہیں؟ نماز سے جو وقت بچتا ہے وہ سفر تقریروں، دھمکیوں اور دھونس میں گزار دیتے ہیں۔ منیر نیازی کے اس شعر کی زندہ تفسیر : کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ!
یہ ہر پارٹی پر کھلم کھلا تنقید کرتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جوابِ آں غزل کے طور پر بھی کسی لیڈر نے انکی شان میں ایک مصرعہ تک نہیں کہا۔
ہمارے دوست ملک صاحب کہنے لگے (He Provides comic Relief) ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اگلے الیکشن میں اللہ تعالیٰ انہیں سُرخرو کرے۔