بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
جس مونس الٰہی کو عمران خان وفاقی کابینہ کا حصہ بنانے کو تیار نہیں تھے اس کو بہت اہم کردار دینے جارہے ہیں ۔گزشتہ کالم میں چوہدری خاندان اور اس کے مستقبل کے حوالے سے چند معروضات آپ کے سامنے رکھی تھیں۔ جن کا مفہوم تھا کہ ممکنہ طور پر چوہدری خاندان پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے جارہا ہے۔ تکلف برطرف سیاسی طورپر ان کو یہی موزوں تھا کہ پی ٹی آئی میں سیاسی گنجائش بھی موجود تھی اور اس جماعت کے ساتھ چوہدری پرویز الٰہی کے سیاسی جانشین چوہدری مونس الٰہی کا مستقبل بھی محفوظ معلوم پڑتا ہے۔ گزشتہ روز چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے ایک گفتگو کے دوران اس بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ (ق) لیگ پی ٹی آئی کا حصہ بن جائیگی گو بطور جماعت ایسا ممکن ہونے میں چند قباحتیں ہیں جن کے پیش نظر ایسا سمجھنا مشکل ہے۔ اس کی پہلی اور بڑی وجہ تو قانونی ہے کہ کاغذات کے مطابق پارٹی کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین ہیں اور تاحال ان کو ہی یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی جماعت کو کسی دوسری جماعت میں شامل کریں‘ اتحاد بنائیں‘ جماعت کا وجود برقرار رکھیں یا ختم کر دیں۔
دوبارہ عرض کرتا چلوں کہ چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں ہے اور اختلافات کا معاملہ صرف اگلی نسل کے مابین ہی محدود ہے۔
میری رائے میں خاندانی یا موروثیت پر مبنی سیاست کے بنیادی تصورات تبدیل ہونے جارہے ہیں جس کا بڑی حد تک کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے کہ سوال نا کرنے والے طبقات اب اور کچھ نہیں بھی کرسکتے تو کم ازکم سوال اٹھانا تو شروع ہو ہی گئے ہیں اور اب ہر بات پر سوال اٹھاتے ہیں۔ شریف خاندان میں شہبازشریف وزیراعظم بننے کے بعد بھی مثالی حد تک میاں نوازشریف کی رائے کے ہم قدم رہے ہیں لیکن اس کے بعد کیا ہوگا؟ اگلی نسل اس معاملے کو کیسے لے کر چلے گی؟ یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ چہ میگوئیاں اور صحافتی درفنطیاں جاری ہیں کہ میاں نوازشریف کے سیاسی ترکہ کا وراث کون بنے گا؟ سوشل میڈیا کا اس موضوع پر طوفان بدتمیزی ان کے سوا ہے۔ بلاول بھٹو ‘ سابق صدر آصف علی زرداری کی سرپرستی میں سیاسی امور کے حوالے سے اپنی دودھیالی عزیز داری کے اثرورسوخ پر فی الحال خاموش ہیں لیکن کل کس نے دیکھا ہے؟
چوہدری خاندان کا معاملہ تو اب سامنے کی بات ہے ممکن ہے کہ ان الفاظ کی اشاعت تک چوہدری پرویز الٰہی یا مونس الٰہی کا کوئی فیصلہ آپ کے سامنے آجائے۔
اطلاعات ہیں کہ عمران خان پرامید ہیں کہ وہ مسلم لیگ (ق) میں سے پرویز الہیٰ فیملی اور ان کے متعلق افراد کو پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے کے لیے راضی کرلیں گے۔ کیوں؟ کیونکہ ان کے خیال میں وہ ایسی آفر کرچکے ہیں کہ جس کے بعد ’’ناں‘‘ کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ پی ٹی آئی میں شمولیت کے لیے مونس الٰہی کو پنجاب کی صدارت دی جاسکتی ہے کہ اس طرح سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا سیٹوں کی تقسیم پر مذاکرات کا ممکنہ تنازع ہی ختم ہو جائے گا۔ یہ یقین دہانی بھی کرائی جارہی ہے کہ پرویز االٰہی / مونس الٰہی فیصلہ سازی کے ہر مرحلے میں شامل رہیں گے۔ غالب امکان یہی ہے کہ مونس الٰہی یہ پیش کش قبول کرلیں گے۔
ذرائع اس سے آگے کی صورتحال کے حوالے سے بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ مونس الٰہی کو ڈرایا جارہا ہے کہ عمران خان ’’یوٹرن‘‘ لینے کے ماہر ہیں اور اپنے محسنوں کے ساتھ کوئی زیادہ بہتر سلوک نہیں کرتے۔ یہ امکان بھی ان کے سامنے رکھا گیا ہے کہ بشریٰ بی بی کا عمران خان پر بہت زیادہ اثر ہے اور ان کے کہنے پر وہ فیصلہ تبدیل بھی کرلیتے ہیں۔ اس سے آگے کی کہانی کو آپ ذرائع کا دعویٰ سمجھ لیں یا سیاسی گپ شپ کہ مونس الٰہی نے اس کا توڑ بھی ڈھونڈ لیا ہے۔ مونس الٰہی اس حوالے سے بشریٰ بی بی سے ملاقات کرچکے ہیں اور یہاں تک کہا جارہا ہے کہ پیر‘ مرید والے معاملات ہوگئے ہیں۔ اگر ان ساری باتوں کو سامنے رکھیں تو لگتا یہ ہے کہ مونس نے اپنا سیاسی مستقبل محفوظ کرنے کی ساری منصوبہ بندی کرلی ہے۔ یہ تو سب مستقبل بعید کی باتیں ہیں اب تھوڑا سا مستقبل قریب کی بات کرلیں کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل اب ہو چکی ہے کہ گورنر کے دستخط اور منظوری محض رسمی بات ہے کر دیں ( جوکہ تاحال نہیں ہوئے) تو اچھی بات ہے وگرنہ اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں انتخابات یا عوام کا سامنا کرنے سے گھبرا رہی ہیں اور یہ ان کی سیاست کے لیے کوئی اچھی بات نہیں ہوگی۔ محترمہ مریم نواز جنوری کے آخر یا فروری میں پاکستان پہنچ رہی ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ پنجاب میں انتخابی مہم کو لیڈ کریں گی۔ جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ سیاسی وارث کے حوالے سے میاں نوازشریف کے ذہن میں کوئی ابہام نہیں ہے۔
وفاق میں حکومتی اتحاد نے فیصلہ کیا ہے کہ وفاقی حکومت اور پارلیمان اپنی مدت پوری کریں گی اور پنجاب اور کے پی کے میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرادئیے جائیں گے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی پنجاب کے عدم اعتماد کا بدلہ لینے کے لیے کمر کس چکی ہے اور وفاق میں اعتماد کا ووٹ لینے کی بات کی جارہی ہے پنجاب سے یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ٹکٹ کے وعدے پر (ن) لیگ کے اراکین قومی اسمبلی پی ٹی آئی میں شمولیت کے لیے تیار ہیں اور ایسی کسی صورت میں مسلم لیگ (ن) کے لیے 172 کا جادوئی ہندسہ عبور کرنا مشکل ہو جائے گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ الیکشن نا کرانے کے لیے بھی کہیں نا کہیں کام جاری ہے ۔ پنجاب یا کے پی کے بلکہ وفاق کے الیکشن بھی ٹالنے کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔