کیا مناسب نہیں پی ٹی آئی اسمبلی میں بل لائے ایک شخص کے فیصلوں سے پورا سسٹم منجمد ہو رہا ہے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس واپس پارلیمنٹ بھجوانے کی آپشن پر فریقین سے رائے طلب کرلی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا صرف اتنا کہہ دیں کہ ترامیم کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوگا تو 90فیصد کیس ختم ہوجائے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا حکومت اور پی ٹی آئی مل کر بہترین قانون بنا سکتے ہیں۔ سیاسی انجیئنرنگ کے لئے استعمال کے موقف پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا آپ نیب کے کنڈکٹ کے خلاف درخواست لے کر آئیں عدالت ایکشن لے گی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا عمران خان پارلیمنٹ کی بحث کا حصہ بننا چاہتے ہیں نا ہی اس کے فیصلوں کو مانتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم تین رکنی خصوصی بینچ نے کی۔ سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران تحریک انصاف کا پارلیمنٹ واپس جانے کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر بحث آگیا۔ چیف جسٹس نے وزیر اعظم کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا اخبارات میں خبریں چھپی ہیں کہ تحریک انصاف پارلیمنٹ واپس جا رہی ہے، اگر پی ٹی آئی پارلیمنٹ واپس آتی ہے تو کیا حکومت ان کے ساتھ مل بیٹھے گی؟۔ اپنے موکل سے پوچھیں کیا ہم نیب ترامیم کا معاملہ واپس پارلیمنٹ بھیج دیں؟۔ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا بغیر ہدایات لیے عدالت میں کوئی بات نہیں کر سکتا، پارلیمانی نظام میں تمام طریقہ کار واضح اور طے شدہ ہے، اگر پی ٹی آئی چاہے تو پارلیمنٹ جا کر نیب قانون کا ترمیمی بل پیش کر سکتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا قانون سازی اکثریتی رائے کی بجائے اتفاق رائے سے ہونی چاہیے، حکومت اور پی ٹی آئی کو نیب ترامیم کے معاملے میں قومی اور ملکی مفاد کو سامنے رکھا جانا چاہیے، امید ہے حکومت اور پی ٹی آئی اتفاق رائے سے قانون سازی کریں گی۔ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا سیاست کے بغیر جمہوریت کا کوئی تصور نہیں ہے، دوسری جنگ عظیم کے بعد قومی حکومت کا تصور بھی موجود ہے، ہو سکتا ہے پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں آ کر کہے کہ جو نیب ترامیم ان کے دور میں ہوئیں وہ درست ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا چاہتے ہیں کہ نیب ترامیم کا کیس جلد مکمل ہو۔ نیب ترامیم کے فیصلے سے ملک میں قانون پر عملدرآمد متاثر ہو رہا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے عمران خان کے وکیل سے کہاآپ پارلیمنٹ میں جا کر نیب ترامیمی بل پیش کر دیں،پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں کیوں نہیں جا رہے؟ جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا پی ٹی آئی ایک سیاسی فیصلے کے تحت اسمبلی سے باہر آئی، اس لئے ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا حکومت اور پی ٹی آئی دونوں ہی احتساب کا موثر قانون چاہتے ہوں گے، اس لئے حکومت اور پی ٹی آئی مل کر بہترین قانون بنا سکتے ہیں، توقع ہے دونوں جانب سے دانشمندی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا صرف اتنا کہ دیں کہ ترامیم کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوگا تو 90فیصد کیس ختم ہوجائے گا، ترامیم کے ماضی سے اطلاق کے حوالے سے قانون واضح ہے۔ مخدوم علی خان کو اسی لئے ہدایات لینے کا کہا ہے، توقع ہے حکومت کھلے ذہن کیساتھ معاملے کا جائزہ لے گی، سپریم کورٹ کئی مرتبہ آبزرویشن دے چکی کہ نیب ترامیم کیس پارلیمان میں حل ہونا چاہیے۔ بادی النظر میں عمران خان کا کیس 184/3 کے زمرے میں آتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا مناسب نہیں ہوگا پی ٹی آئی اسمبلی میں ترمیمی بل لائے جس پر بحث ہو، اسمبلی میں بحث سے ممکن ہے کوئی اچھی چیز سامنے آ جائے، جس پر عمران خان کے وکیل نے کہا اسمبلی میں واپس جانا یا نہ جانا سیاسی فیصلہ ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اگر پارلیمان سے مسئلہ حل نہ ہو تو عمران خان عدالت آ سکتے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کئی ارکان پارلیمان کا کرپشن کے سنگین الزامات پر ٹرائل چل رہا تھا کیا کوئی ایسی مثال ہے کہ ارکان اسمبلی نے اپنے کیسز ختم کرانے کیلئے قانون سازی کی ہو؟ جس پر حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے موقف اختیار کیا کہ امریکی صدر کو اختیار ہے کہ کسی بھی مجرم کو عام معافی دے دے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کیا نیب ترامیم ایمنسٹی سکیم ہیں یا عام معافی؟ کیا نیب ترامیم کا ماضی سے اطلاق کرنا اپنے الزامات صاف کرنا نہیں ہے؟۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا آئین میں ایسی کوئی پابندی نہیں ترامیم کا ماضی سے اطلاق نہ ہوسکے، کبھی کوئی قانون اس وجہ سے کالعدم نہیں ہوا کہ ارکان پارلیمنٹ کی نیت اچھی نہیں تھی، عدالت ارکان اسمبلی کی نیت کا تعین نہیں کر سکتی، مفادات کا ٹکراؤ بھی قانون سازی کالعدم کرنے کی وجہ نہیں ہو سکتا، بجٹ منظور کرنے والے کئی ارکان اسمبلی صنعتکار اور کاروباری بھی ہوتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا ارکان اسمبلی کے کنڈکٹ پر عدالت اپنی حدود کو پھیلا سکتی ہے؟ جس پر مخدوم علی خان نے کہا یہ دیکھنا اہم ہے کہ نیب ترامیم غیر آئینی ہیں یا نہیں، ایک وزیر نے پاکستان آ کر وزارت کا حلف لیا اور عدالت میں پیش ہونے سے نیب کیسز ختم ہوئے۔ ایک اور وزیر خزانہ اس شرط پر بنے کہ ان پر دائر نیب کیسز ختم کیے جائیں۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو نیب ترامیم سے ریلیف ملا لیکن اسے کسی نے چیلنج نہیں کیا، سابق وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور ایک ادارے کے چیف ایگزیکٹو پر نیب کیس بنایا گیا، کئی سال جیل میں رکھنے کے بعد تفتیش میں کچھ نا ملنے پر وہ بری ہوئے، نیب ماضی میں سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال ہوتا رہا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا آپ نیب کے کنڈکٹ کے خلاف درخواست لے کر آئیں عدالت ایکشن لے گی، ہمیں آزاد تفتیشی اور پراسیکیوٹرز چاہئیں، تفتیشی افسروں اور پراسیکیوٹرز کی نالائقی کی وجہ سے قانون کا نظام خراب ہوا۔ ملک کے قانونی نظام کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا سپریم کورٹ ایسے شخص کا کیس کیوں سن رہی ہے جو پارلیمنٹ سے باہر ہے؟ عمران خان پارلیمنٹ کی بحث کا حصہ بننا چاہتے ہیں نا ہی اس کو فیصلوں کو مانتے ہیں، عدالت کیوں اس شخص کے کیس کا فیصلہ کرے جو خود پارلیمنٹ کا حصہ بننا نہیں چاہتا؟ ایک شخص کے فیصلوں کی وجہ سے پورا سسٹم منجمد ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا جہاں درخواست گزار موجود ہی نہیں تھے اس کارروائی کو کیا چیلنج کر سکتے ہیں؟۔ عمران خان کی درخواست میں ٹھوس حقائق نہیں تھے، لیکن آئے روز ٹھوس حقائق سامنے آ رہے کہ ترامیم کے بعد مقدمات واپس ہورہے ہیں، اب تک 386 کیسز واپس ہوچکے ہیں۔ جسٹس منصو ر علی شاہ نے کہا کیا واپس ہونے والے کیسز کسی اور فورم پر نہیں جا سکتے؟۔ مخدوم علی خان نے کہا دیگر فورمز موجود ہیں جہاں کیسز چل سکتے ہیں، جی آئی ڈی سی کیس میں عدالت نے قرار دیا کہ حاصل رقم صرف گیس منصوبوں پر خرچ ہو۔ جی آئی ڈی سی سے حاصل رقم قومی خزانے میں جا کر غائب ہوگئی، نیب کو رضاکارانہ واپس کی گئی رقم بھی قومی خزانے میں نہیں آئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا رقم غائب ہونا ہی تو اصل مسئلہ ہے جسے روکنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا بدقسمتی ہے کہ عوام کا پیسہ کس کس طرح غائب کیا گیا، پی ٹی وی کے مطابق ستر کی دہائی میں پاکستان نے چائنہ کو قرض دیا تھا۔ پی آئی اے کبھی دنیا کی بہترین ایئرلائن ہوا کرتی تھی، اب سب لوگ مفاد پرست ہوچکے ہیں۔ عدالت دوسرے اداروں کا کام کرنے کے بجائے انہیں فعال کرنا چاہتی ہے، آئین پر عملدرآمد کیلئے عدالت ہر ادارے پر نظر رکھ سکتی ہے، عدالت نے ہمیشہ الیکشن کمیشن کو مضبوط کیا ہے،آڈیٹر جنرل کو بھی مضبوط ہونا چاہیے تاکہ حکومتی کام میں شفافیت آ سکے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا عدلیہ پر بھی نظر رکھنی ہوگی لاہور ہائیکورٹ میں ججز کا راستہ روک دیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا لاہور والا مسئلہ حل ہوچکا ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا پارلیمان بھی آئینی ادارہ ہے اسے بھی سپورٹ کرنا چاہیے، جس کے بعد وقت کی کمی کے باعث مزید سماعت کل بدھ تک ملتوی کردی گئی۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کہہ سکتی ہےہمارے دور کی ترامیم درست تھیں۔
نیب ترمیم کیس