بدھ ،25 جمادی الثانی 1444ھ، 18 جنوری 2023ئ
دیگر جماعتوں سے پی ٹی آئی میں شامل ہونے والوں کا پہلے ٹیسٹ لیں گے۔ عمران خان
سڑک پر مسلسل یوٹرن لینے سے جس طرح حادثے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اسی طرح سیاست میں بار بار موقف بدلنے سے مقبولیت کھونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ بے شک کوئی عقل کا دیوتا ہی کیوں نہ ہو اگر ہر قدم پر اپنے پچھلے مو¿قف سے ہٹ کر نیا مو¿قف پیش کرے گا تو لوگ اسے جہالت کے دیوتا کا خطاب دینے میں ذرا بھر تاخیر نہیں کرینگے اور بھی بہت سے سیاستدان بقول ان کے مصلحت کے پیشِ نظر سیاسی پینترابدلتے رہتے ہیں۔ مگر ان کے حامی اور وہ خود یوٹرن کو گناہ نہیں سمجھتے۔ اب رہی بات عمران خان کی تو وہ سیاست میں آتے ہی یوٹرن اور غیر جانبداری کو گناہ قرار دیتے رہے ہیں۔ جنہیں بقول خود وہ کبھی چپڑاسی بھرتی نہ کرنے اور سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا انہیں مسلسل 4 سال سے وہ سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ لوگ حیران تھے کہ کل تک کے یہ راندہ¿ درگاہ کیوں قابل قبول ہوئے۔ مگر چونکہ ان کی پارٹی میں کسی کو سوال کرنے کا حق نہیں چپ رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اس لیے سب سر جھکائے ان کے ہر فیصلے پر سرتسلیم خم کرتے ہیں۔ کل تک وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کو کرپٹ لوگوں کا ٹولہ کہتے تھے۔ ان سے بات تک کرنا انہیں گوارہ نہیں تھا۔ آج ان کے ممبران اسمبلی کے بارے میں کہہ رہے ہیں وہ ہم میں شامل ہونا چاہ رہے ہیں۔ ہم ان کو ٹیسٹ کریں گے پھر شامل کریں گے۔کیا یہ بلب یا بیٹری سیل ہیں جو ٹیسٹ کر کے خریدیں گے۔ کیا پی ٹی آئی کا مفلر گلے میں ڈال کر ان کے سارے گناہ مٹ جائیں گے۔ اصل بات یہ ہے اب عمران خان کو مالدار اے ٹی ایم قسم کے الیکشن میں پیسہ خرچ کر کے جیتنے کی صلاحیت رکھنے والے لوگ درکار ہیں خواہ نون لیگی ہوں یا پیپلز پارٹی والے۔ انہیں ان کے ذات و کردار سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اب معلوم نہیں پی ٹی آئی کے گنگا نہائے یہ سب کچھ کیسے برداشت کر لیں گے۔ یہ تو سراسر دریا میں سیوریج کا پانی ڈالنے والا عمل لگ رہا ہے۔
٭٭٭٭٭
بدین میں ایک ہی خاندان کے 6 افراد بلدیاتی الیکشن میں کامیاب
یہ تو ”ایں خانہ ہمہ آفتاب است“ کی زندہ مثال ہے۔ ایک دو کی جیت عام بات ہوتی 3 یا 4 کی اہم بات ہو سکتی ہے۔ مگر یہ 5 یا 6 کی کامیابی تو عجوبہ ہے عجوبہ۔ معلوم نہیں ان سب نے کیا جادو کیا کہ علاقے کے رہنے والوں نے ان کو ووٹ دے کر بلدیاتی ممبر بنا دیا، یا ہو سکتا ہے ان کی خدمت لوگوں سے محبت اور ان کے غم و خوشی میں شمولیت کو دیکھ کر انہوں نے ان سب کو کامیاب کرنے کا فیصلہ کیا۔ بات جو بھی ہو یہ بہرحال ایک ریکارڈ ہی ہے۔ ورنہ بڑے بڑے سیاسی خانوادے اتنی بڑی خوشی سے محروم نظر آتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ان کے دو یا تین ارکان فیملی ہی بیک وقت کامیاب نظر آتے ہیں۔ اب بدین کے سائیں بخش جمال کے تین بھائی، بیٹا اور بھتیجا جس طرح کامیاب ہوا ہے اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقے میں پیپلز پارٹی خاصی مقبول ہے یا پھر اس خاندان کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔ اب یہ لوگ آئندہ بھی سیاسی میدان میں پیش قدمی جاری رکھیں گے۔ ہاں اگر کوئی دوسرا بااثر گروپ ان کی مخالفت میں سامنے نہ آیا۔ اس خاندان والوں کے 3 افراد یو سی چیئرمین منتخب ہوئے۔ 2 ضلعی کونسلر ایک یونین کونسلر کامیاب ہوا ہے۔ اب کوئی بتائے کہ ہم کب موروثی یا خاندانی سیاست کے کال چکر سے نکلنے میں کامیاب ہوں گے۔ یہاں تو ایک سے جان چھڑاﺅ دس دیگر خاندانی یا موروثی امیدوار سامنے آتے ہیں۔ سب چاہتے کہ اقتدار ان کے گھر میں لونڈی بن کر مقید رہے اور باہر کسی اور کی طرف نہ جائے۔ یہ بات مخالفین سے برداشت نہیں ہوتی اور اس طرح طویل سیاسی جھگڑے اور ذاتی و خاندانی رنجشیں جنم لیتی ہیں۔ جس کا انجام سب کو معلوم ہے۔
٭٭٭٭٭
فیصل آباد میں ڈاکو چابیوں کو پسٹل سمجھ کر بھاگ گئے
بڑے بودے نکلے یہ بزدل ڈاکو۔ بھلا جب کام ہی لوٹ مار ہو تو پھر دل بھی بھیڑئیے کا ہونا چاہیے جو اِدھر اُدھر منہ مار کر پیٹ بھرتا ہے۔ اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اب عام شہری اپنی جیبوں میں کوئی بھاری بھرکم لوہے والی چیز ضرور رکھیں جسے نکالتے ہوئے کچھ وقت لگے اور دیکھنے والا اسے کوئی خطرناک چیز سمجھ کر یا اسلحہ سمجھ کر خود ہی راہ فرار اختیار کرے اور لوگوں کی جان چھوٹ جائے۔ ہاں بس اتنی احتیاط ضرور برتیں کہ سب جگہ ایسا فارمولا کامیاب نہیں ہوتا کہیں اِدھر کوئی جیب سے چابیوں کا گچھا نکال رہا ہو اور ڈاکو ذرا دلیر قسم کے ہوں وہ تو بنا کسی تردد کے ہی ٹھاہ ٹھاہ کر دیں اور بے چارہ غریب کا بال (بچہ) خواہ مخواہ ہی جان سے جائے یا زخمی ہو جائے۔ اس لیے ہمارے مشورے سے زیادہ بہتر ہے کہ ہر ایک شخص موقع کی مناسبت سے اپنے دفاع کے لیے کوئی حربہ استعمال کرے۔ یا پھر خاموشی سے لٹنے میں ہی عافیت سمجھے۔ پولیس والوں کا مشہور مقولہ بھی یہی ہے کہ ڈاکوﺅں کے سامنے مزاحمت کی بجائے مفاہمت کا طرزِعمل اختیار کریں تاکہ کسی جانی نقصان سے محفوظ رہیں۔ ویسے بھی کہتے ہیں جان بچی سو لاکھوں پائے تو جناب اب یہ فیصلہ کرنا ہر شخص کا ذاتی حق ہے کہ وہ پستول تانے ہوئے لٹیرے کے سامنے کیسا طرزِعمل اختیار کرتا ہے۔ کسی کے مشورے پر عمل نہ کریں۔ بہادری اچھی چیز ہے مگر احتیاط اس سے بڑھ کر ہے۔
٭٭٭٭٭
کیا اعلیٰ تعلیم یافتہ کم اہلیت والے عہدے کے حقدار نہیں۔
عدالت کے کسی فیصلے پر رائے دینے کا ہمیں حق تو نہیں۔ البتہ لوگوں کے منہ اور گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں بہرحال کوئی بند نہیں کر سکتا۔ یہ تو کوئی بات ہو سکتی ہے کہ کس نااہل کو کم علم کو یا کم تعلیم والے کو اعلیٰ ملازمت نہیں دی جا سکتی۔ کیونکہ وہ اس عہدے کا یا کام اہل نہیں ہوتا۔ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری طرح کیا عام طور پر انجام نہیں دے سکتا۔ مگر یہ کہاں کی منطق ہے کہ اعلیٰ تعلیم والا ادنیٰ نوکری کا حق نہیں رکھتا۔ لاکھوں نوجوان جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اس وقت ڈگریاں اٹھائے سڑکیں ماپ رہے ہیں جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں مگر سفارش اور رشوت ان کے پاس نہیں۔ ان کا مستقبل اور حال غربت کے گھپ اندھیروں میں کھو رہا ہے۔ جہاں دور دور تک روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی ایسی حالت میں وہ بے چارے کلرک یا نائب قاصد کے لیے بھی درخواستیں دینے پر مجبور ہیں تاکہ عمر زیادہ نہ ہو جائے۔ اس طرح کچھ نہ کچھ تنخواہ تو آئے گی۔ یہ وہ بے چارے ہیں جو اسلحہ اٹھا کر ڈاکے نہیں مار سکتے۔ ہاں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں دہشت گرد تنظیموں کے ہتھے نہ چڑھ جائیں جو ان کی قابلیت کے مطابق ان سے کام لیتی ہیں اور مناسب معاوضہ بھی دیتی ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ پورے ملک میں کم تعلیم والوں پر اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے بند کئے جائیں اور اعلیٰ تعلیم والوں پر اعلیٰ یا ادنیٰ تمام ملازمتوں کے دروازے کھلے رکھے جائیں تاکہ وہ غلط راہوں کے مسافر بن کر پورے ملک اور نظام حکومت کے لیے خطرناک ثابت نہ ہو۔ اس لیے ان اعلیٰ تعلیم والوں سے تھوڑے بہت رزق کا موقعہ نہ چھینیں۔ اگر کچھ نہیں ہو سکتا تو عدالت اپنے حکم سے ان کے لیے جب تک کوئی نوکری نہیں ملتی مناسب ماہانہ معاوضہ مقرر کرے تاکہ انہیں غم روزگار سے کچھ نجات ملے۔