• news
  • image

کیا کھیلوں کے ذریعے ملکی مسائل حل ہوسکتے ہیں؟

نئی صدی کے شروع ہونے کے بعد سے دنیا بھر میں مختلف طرح کے انقلابات رونما ہورہے ہیں۔ ان انقلابات سے صرف افراد اور ادارے ہی نہیں بلکہ ریاستیں بھی متاثر ہورہی ہیں۔ اسی لیے ہر ترقی یافتہ اور آگے بڑھنے کے خواہش مند ملک کی طرف سے ایسی پالیسیاں تشکیل دی جارہی ہیں جن کی مدد سے نئے زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلا جاسکے۔ یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ پاکستان سمیت بہت سے ترقی پذیر ملکوں میں ایسے معاملات تاحال اس طرح زیر غور نہیں آسکے جیسے ان پر توجہ دینے کا حق ہے۔ اسی لیے ہم معاشی مسائل میں مسلسل الجھتے جارہے ہیں اور سماجی و سیاسی الجھیڑے ہمارے ان مسائل میں مزید اضافہ کررہے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ہم کچھ نہیں کرتے، بس دوست ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی کرم گستریوں کے منتظر رہتے ہیں۔ مختلف ممالک اور ادارے کئی وجوہ کی بنا پر کبھی قرض اور کبھی امداد کی شکل میں ہماری یاوری تو کرتے ہیں لیکن ہمارے مسائل کا کوئی مستقل یا دیرپا حل فراہم کرنا ان کی ذمہ داری ہرگز نہیں ہے۔
معاملات میں سدھار لانے کے لیے ہم تو ابھی تک دست نگری کی روایت ہی سے جڑے ہوئے ہیں تاہم آج کی بدلی ہوئی دنیا میں ریاستیں اپنے مختلف مسائل حل کرنے کے لیے کھیلوں سے بھی مدد لے رہی ہیں۔ اب ایسے ممالک بھی کھیلوں کو اہمیت دے رہے ہیں جو روایتی طور پر اس طرح کی سرگرمیوں سے کم وابستگی رکھتے ہیں۔ دوسری جانب، پاکستان جیسے ملک جہاں افراد میں کھیلوں کے حوالے سے صلاحیت بھی بہت زیادہ ہے اور ماضی میں عالمی منظرنامے پر ان کا نام بھی نمایاں رہا ہے، مسائل کی دلدل میں پھنسنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ کھیلوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان اس سلسلے میں دنیا میں ایک کیس سٹڈی کی حیثیت رکھتا ہے کہ ایک وقت تک یہ ملک جن مختلف کھیلوں میں عالمی چیمپیئن رہا اور آج ان کے حوالے سے اس کی کوئی خاص پہچان نہیں ہے۔ بظاہر یہ بات کھیلوں سے دلچسپی سے جڑی ہوئی ہے لیکن اس کے پیچھے کئی سماجی، سیاسی اور اقتصادی عناصر بھی کارفرما دکھائی دیتے ہیں جن پر توجہ دینے کا ہمارا تو کوئی ارادہ نہیں ہے۔
جدید دنیا میں کھیلوں کو صرف افراد کی جسمانی سرگرمی ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ انھیں سفارت کاری کا اہم ذریعہ بھی مانا جاتا ہے۔ سٹوارٹ مرے (Stuart Murray) کی تصنیف Sports Diplomacy اس حوالے سے ایک دلچسپ کتاب ہے کہ کھیلوں اور کھلاڑیوں کو کس طرح سفارت کاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور ان کے ذریعے ممالک کے مابین تعلقات کیسے بہتر بنائے جاتے ہیں۔ اسی طرح کھیلوں کی سرگرمیوں کو ریاستوں کے اپنے ایجنڈے کے لیے استعمال کرنے کے ایک حوالے کو انگریزی میں Sportswashing کہا جاتا ہے۔ جب افراد، کاروباری ادارے یا ممالک اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے کھیلوں کا سہارا لیتے ہیں تو اس عمل کو Sportswashing کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح حال ہی میں قطر میں ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کے موقع پر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں کئی جگہ استعمال ہوئی کیونکہ قطر پر مختلف حلقوں اور افراد کی جانب یہ الزامات عائد کیے گئے کہ وہ مذکورہ عالمی مقابلے کے انعقاد کے ذریعے اپنی منفی سرگرمیوں سے توجہ ہٹانا چاہ رہا ہے۔
معروف امریکی جریدے فوربز (Forbes) کی ایک رپورٹ کے مطابق، قطر نے فٹ بال کے عالمی مقابلے پر دو سو ارب ڈالرز سے زائد رقم خرچ کی اور اس مقابلے کا اہتمام کرنے والی عالمی تنظیم فیفا کی تاریخ میں اس مقابلے پر صرف کی جانے والی یہ سب سے زیادہ رقم ہے۔ تقریباً ایک مہینے تک ہونے والے فٹ بال کے مختلف میچز دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے بارہ لاکھ سے زائد شائقین قطر گئے جہاں قطری حکومت نے ایسے انتظامات کررکھے تھے جن کا مقصد قطر کا مثبت امیج اجاگر کرنا تھا تاہم اس موقع پر کچھ پابندیاں بھی عائد کی گئیں جن پر یورپی ممالک اور امریکا سے تعلق رکھنے والے شائقین شکوہ کناں دکھائی دیے۔ ایک معاملہ جو خصوصی طور پر مثبت اور منفی دونوں طرح کی بحثوں کا موضوع بنا وہ اس مقابلے کے موقع پر مذہب کی تبلیغ تھا جس کے لیے دنیا بھر سے مبلغین کو سرکاری خرچے پر قطر لایا گیا تھا۔ اس بارے میں راقم کا تفصیلی موقف 24 نومبر 2022ء کو ’فیفا ورلڈکپ اور مذہب کی تبلیغ‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے کالم میں پیش کیا جاچکا ہے۔ 
قطر کے بعد اب سعودی عرب بھی کھیلوں کے ذریعے اپنا مثبت امیج بنانے کی کوشش میں جت گیا ہے اور اسے بھی اسی قسم کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو اس سے پہلے قطر پر لگائے گئے تھے۔ سعودی عرب ان الزامات پر توجہ دیے بغیر کھیلوں کے مختلف بین الاقوامی اور عالمی مقابلوں کی میزبانی کا اعزاز حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس سلسلے میں وہ سب سے زیادہ کوشش فٹ بال ورلڈ کپ اور اولمپکس کھیلوں کی میزبانی کی ذمہ داری لینے کے لیے کررہا ہے اور اطلاعات کے مطابق اس نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ اگر ان دونوں عالمی مقابلوں کی میزبانی اسے ایک ہی دہے میں دیدی جائے تو وہ اس سے دو گنا رقم دے سکتا ہے جو کوئی دوسرا ملک ادا کرے گا۔ پاکستان کے پاس قطر اور سعودی عرب جتنی دولت تو نہیں ہے کہ وہ بڑے بڑے عالمی مقابلوں کی میزبانی کرسکے لیکن اس کے پاس ایسے افراد ضرور ہیں جن کی کھیلوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ہم اپنے مسائل کے حل کے ضمن میں مدد لے سکتے ہیں تاہم شرطِ لازم یہ ہے کہ اس سلسلے میں مطلوبہ سنجیدگی سے کام لیا جائے۔
٭…٭…٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن