جمعرات ،26 جمادی الثانی 1444ھ، 19 جنوری 2023ء
سرپرائز کیسا لگا۔ استعفوں کی منظوری پر عطا تارڑ کا بیان
اب کس نے کس کو سرپرائز دیا یہ سب کے سامنے ہے کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم جب دوسرے کو پھنسانے کے لیے جال بچھاتے ہیں خود بھی ’’لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا‘‘ کے مصداق پھنس جاتے ہیں۔ اس سے کوئی مبرا نہیں۔ بے شک عمران خان اقتدار کھونے کے بعد پے درپے ایسے کام کر رہے ہیں جنہیں سیاسی طور پر غلط کہا جا سکتا ہے۔ قومی اسمبلی سے استعفے پھر اب دوبارہ وہاں جانے کی بات یہ سب انہیں زیبا نہیں دیتا کیونکہ وہ ایک سخت گیر موقف رکھنے والے سیاستدان کہلانے پر مصر ہیں۔ مگر ان یوٹرنوں نے انہیں رجولی سیاستدان بنا دیا ہے۔ اب ان کی طرف سے بار بار سرپرائز دوں گا کے جواب میں جو کچھ ہمارے سامنے آیا ہے۔ وہ تو اب خود خان صاحب کے لیے ایک دلچسپ سرپرائز بن گیا ہے۔ مسلم لیگ کے رہنما عطا تارڑ نے ان پر پھبتی کسی ہے کہ کیوں کیسا لگا ہمارا سرپرائز اب پی ٹی آئی ہو یا پی ڈی ایم یہ دونوں ایک دوسرے کو اگر اسی طرح سرپرائز دیتے رہے تو خطرہ ہے کہیں کوئی تیسری قوت میدان میں انٹر ہو کر ان دونوں کو کوئی نیا سرپرائز نہ دے ڈالے۔ گرچہ قوی امکان تو یہی ہے کہ ایسا ممکن نہیں مگر ہمارے ہاں ناممکن کو ممکن بنانے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ کیونکہ ہمارے ہاں ماوزے تنگ نہیں ہے جو لانگ مارچ کر کے دھرتی پر تبدیلی کا بھونچال لائے۔ یہاں سب اپنی چمڑی بچانا جانتے ہیں ۔ ہاں البتہ مفت میں عوام کی چمڑی ادھیڑی جاتی ہے۔ مگر وہ بھی اب سیانے ہو گئے ہیں۔ رہی بات اشرافیہ اور ممی ڈیڈی گروپ کی تو وہ چڑھتے سورج کے پجاری ہیں۔ ہمیشہ ہر نئے آنے والے کو ویلکم کہنے کی ان کی روایت پرانی ہے۔ ننگی پیٹھ پر صرف غریب عوام ہی کوڑے کھاتے رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
لاہور میں کوڑا پھینکنے والوں پر مقدمہ ہو گا اور گرفتاری بھی
پولیس اور ایل ڈبلیو ایم سی میں معاہدہ ہو گیا ہے۔ یہ ایک بڑی خبر ہے۔ کم از کم لاہور والوں کو تو کوڑے کے پڑے بدبو دار پہاڑوں سے نجات ملے گی۔ خواہ دکاندار ہو یا ریڑھی والا۔ گھر والا ہو یا بنگلے والا اس قانون سے کسی کو استثنیٰ نہیں ہونا چاہیے۔ خبر تو یہ بھی ہے اس معاہدے کے بعد ملتان چونگی میں ایک درجن سے زیادہ پرچے کٹ گئے ہیں۔ کیا ملتان چونگی سوتیلی بہن ہے۔ باقی علاقوں میں کونسا صفائی کا نظام بہتر ہے۔ وہاں کیوں نہیں پرچے کٹے ذرا محکمہ صفائی اپنا دامن اٹھا کر دیکھے۔ آنکھوں پر بندھی پٹی کھول کر نظر ڈالے تو چند پوش علاقوں اور سڑکوں کو چھوڑ کر پورا لاہور محکمہ صفائی کی غفلت اور شہریوں کی سڑک پر کچرا پھینکنے کی عادت بد کی بدولت کچرا کنڈی بنا نظر آئے گا۔ شادباغ ، لوہاری، بھاٹی، شاہ عالمی، داتا دربار، مستی گیٹ، نسبت روڈ، اکبری گیٹ، شاہدرہ، بلال گنج کے علاوہ اندرون شہر بھی صفائی کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ قصور دونوں کا ہے۔ شہری گھر کا، دکان کا سارا کوڑا نہایت اطمینان سے سڑکوں پر نالوں میں پھینک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اب ان کو فوری جرمانہ اور اڑی دکھانے پر گرفتاری کا مژدہ ملنے لگے تو شاید یہ بگڑے لوگ آہستہ آہستہ سدھرنے لگیں گے۔ بس کہیں یہ نہ ہو کہ چالاک لوگ دوسرے کے گھروں اور دکانوں کے آگے اپنا گند پھینک کر خود معصوم بننے بیٹھیں۔ اس چالاکی کا توڑ نکالنا ہو گا۔ کسی کو شہر گندا کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ خاص طور پر ہوٹلوں، فاسٹ فوڈ ، جوس اور ریڑھی والے تو صفائی کے معاملے میں نہایت بے احتیاط ہیں انہیں ذرا بھاری جرمانے اور گرفتاری کا مزہ چکھا کر ہی راہ ِ راست پر لایا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭
20 سال بعد لال حویلی سے سرکاری سکیورٹی ہٹا لی گئی
جب حکومت گئی، قومی اسمبلی کی ممبر شپ گئی۔ یار دوست حکمران نہ رہے تو پھر شیخ جی کا بوجھ کون اٹھائے۔ اب انہیں خود اپنی اور لال حویلی کی حفاظت کا بندوبست کرنا ہو گا جو بہرحال شیخ کی سرشت کے خلاف ہے۔ شیخ تو ہمیشہ دوسروں پر ہر کام کے لیے تکیہ کرنے کے عادی ہیں۔ وہ تو اپنی گرہ سے ایک دھیلا بھی خرچ کرنے کے روادار نہیں۔ اسی لیے شاید انہوں نے گھر بھی نہیں بسایا کہ گھر کے بیگم کے اخراجات کہاں سے دیں اور کیوں دیں۔ جن سے گھر والی کا خرچہ برداشت نہیں ہوا وہ بھلا گھر کی حفاظت کا خرچہ کہاں برداشت کریں گے مگر کرنا تو پڑے گا ورنہ خطرہ ہے کہیں گجرات میں پیش آنے والے واقعہ کی طرح انہیں بھی مخالفین کی طرف سے تنگ نہ کیا جائے۔ گجرات میں مقامی لوگوں نے اپنی اراضی عطیہ کر کے وہاں سرکاری ہسپتال بنوایا جسے اب اپ گریڈ کرنا تھا۔ موقع غنیمت جانتے ہوئے پرویز الٰہی کے بھتیجے چودھری موسیٰ نے اس سرکاری ہسپتال کا نام تبدیل کر کے چودھری ظہورالٰہی رکھنا چاہا تو اہلِ دیہہ بپھر گئے اور انہوں تقریب پر ہلہ بول دیا جس پر چودھری موسیٰ نے وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔ ویسے بھی جس نے جو کام کیا ہوا ہے اسے اس سے ہی منسوب کرنا بہتر ہے۔ جیسے شوکت خانم ہسپتال عمران خان نے اپنی والدہ کے نام سے بنایا ہے۔ اب اسے کسی اور نام سے منسوب کرنا زیادتی ہو گی۔ اسے وہ اور ان کے ساتھی کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ سو ایسا ہی گجرات میں ہوا۔ اب کہیں لال حویلی پر حق دعویٰ کرنے والے متروکہ املاک بورڈ نے اپنا حق وصول کرنے کے لیے دھاوا بولا یا مخالفین نے وہاں دھرنا دیا تو پھر کیا ہو گا۔ اس لیے بہتر ہے شیخ جی ازخود اقدامات کرتے ہوئے نجی سکیورٹی گارڈز کی خدمات حاصل کریں۔ اسی طرح چلو کچھ غریبوں کا بھلا ہو گا ان کے گھر چولہا جلے گا جو شیخ جی کے گھر کا تو جلتا نہیں۔
٭٭٭٭٭
الجزائر میں خرگوش کے نام پر بلی کے گوشت کی فروخت
شکر ہے پاکستان میں خرگوش کا گوشت نہیں کھایا جاتا۔ گرچہ یہ حلال ہے مگر لوگ پسند نہیں کرتے ورنہ یہاں تو کب کے گلی محلوں سے بلیاں۔ بلے غائب ہو چکے ہوتے۔ جس طرح چڑے کھلانے والوں نے گوجرانوالہ اور گرد و نواح سے مینا اور لالیاں ختم کر دی ہیں اور دنبہ روسٹ کھلانے والوں نے جی ٹی روڈ کے اردگرد سے ہزاروں کی تعداد میں پھرنے والے انسان کے قدیم وفادار دوست جانور کا صفایا کر دیا ہے۔ اب یہ جو پہلے ہزاروں کی تعداد میں اِدھر اُدھر بھونکتے پھرتے یا کاٹتے پھرتے تھے دور دور تک جی ٹی روڈ کے آس پاس نظر نہیں آتے۔ الجزائر میں بھی ہم جیسے لوگ رہتے ہیں۔ ہم فخر سے خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں مگر ہمارے کرتوت کسی صورت اس خوبصورت اور پاکیزہ نام سے میل نہیں کھاتا۔ بے شک ہماری شکل تو مومنوں والی ہے مگر ہمارے کرتوت کافروں جیسے ہیں۔ اب معلوم نہیں الجزائر والے اس خبر کا کیانوٹس لیتے ہیں۔ ہم نے کونسا لیا تھا۔ نجانے کیوں ہم مسلمان لین دین میں تجارت میں کاروبار میں دو نمبری اور غلط راہ نکالتے ہیں، دھوکے د ہی سے چند پیسے کمانے کو کیوں ترقی کی معراج سمجھ لیتے ہیں۔ یہ گمراہی ہمارے ہاں عام ہے جبکہ یورپی ممالک غیر مسلم ہونے کے باوجود حرام گوشت کھانے کے باوجود دو نمبری اور ہیرا پھیری سے محفوظ ہیں۔ اب خدا جانے اور کہاں کہاں کس کس ملک میں کیا کچھ کھلایا جاتا ہے اور سادہ لوح عوام مزے لے لے کر کباب تکے ، چانپیں، کوفتے، جی بھر کر اڑاتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ یہ کس گوشت کے ہیں۔ یہ ہماری حکومتوں کا، علاقائی انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ ایسا مکروہ دھندا کرنے والوں کا کڑا احتساب کرے۔ انہیں نشان عبرت بنائے تاکہ کسی کو مسلمانوں کو حرام یا مردار گوشت کھلانے کی جرأت نہ ہو۔