• news
  • image

اسد قیصر کی ’’امیّد‘‘


ممتاز سیاستدان اور ’’ایک بہادر آدمی‘‘ کا خطاب پانے والے جاوید ہاشمی کو جھوٹے مقدمے سے بری کر دیا گیا ہے۔ اوقاف کی اراضی پر قبضے کے گھڑنت الزام کے تحت عثمان بزدار کی حکومت نے یہ مقدمہ بنایا تھا اور مقدمہ کی سماعت سے پہلے ہی جاوید ہاشمی کی بعض قیمتی املاک مسمار کر کے انہیں مالی نقصان اور ذہنی اذیت سے دوچار کیا گیا تھا۔ فیصلے کے پیچھے عثمان بزدار نہیں تھا، کوئی اور دیوتا صفت تھا جسے اس بات کا صدمہ تھا کہ ’’عدالتی مارشل لائ‘‘ لگانے اور نواز حکومت کو ختم کر کے عمران کو برسراقتدار لانے کا منصوبہ جاوید ہاشمی نے کیوں ’’لیک‘‘ کر دیا۔ دو سال قبل بننے والے اس مقدمے کو انٹی کرپشن کی عدالت نے ختم کر دیا اور قرار دیا کہ محکمہ نے اختیارات سے تجاوز کیا اور شواہد بھی نہیں دئیے۔ 
اصولاً جاوید ہاشمی کو پہنچنے والے مالی نقصانات کا ازالہ ہونا چاہیے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہاشمی کی بریت پرویز الٰہی کی حکومت کے خاتمے کے دنوں میں ہوئی۔ عجیب اتفاق یہ ہے کہ بہت پہلے ، پرویز الٰہی ہی کی حکومت میں جاوید ہاشمی کو بغاوت کے ایک جھوٹے مقدمے میں طویل قید کی سزا سنائی گئی تھی اور جیل میں ان پر شدید جسمانی تشدد اور اذیت رسانی کی گئی جس کی وجہ سے انہیں جزوی فالج اور طویل المیعاد بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ خبر تب کے اخبارات میں چھپی تھی کہ پنجاب حکومت نے جیل حکام کو حکم دیا تھا کہ جاوید ہاشمی کو پانی کا کولر رکھنے کی اجازت دی جائے۔ شدید گرمی کے موسم میں ہاشمی صاحب گرم پانی پیتے رہے اور پرویز الٰہی ’’رواداری اور وضعداری‘‘ کی داد دیتے رہے۔ جیل میں درحقیقت جاوید ہاشمی نے عزیمت کی داستان رقم کی۔ بعدازاں رہائی کے بعد انہوں نے ’’عدالتی کو‘‘ کی خبر لیک کر کے عمران خان کو برسراقتدار لانے کے منصوبے میں 4 سال کی تاخیر کر دی۔ ابتدائی منصوبے کے تحت عمران خان کو 2014ء میں ہی برسراقتدار کر دیا جانا تھا۔ چار سال کی تاخیر سے اس وقت کے ’’قومی مفاد‘‘ کو شدید نقصان پہنچا۔ ماضی کے قومی مفاد نے پھر جاوید ہاشمی کو کبھی معاف نہیں کیا اور اسی کے تحت ان پر اوقاف قبضے کا کیس بنا۔ بہرحال ہاشمی صاحب کو مبارک ہو اور پرویز الٰہی کی وضعدار اور روادار روایات کو سلام کرنا بھی ، حسب حال ، واجب ہے۔ 
_____________
بڑی بڑی خبروں کا زمانہ ہے یعنی 35 استعفے منظور، عمران خان اگلے مہینے سے پھر سڑکوں پر آنے کے لیے تیار، کراچی سے پی ٹی آئی کا پرشکوہ صفایا لیکن اصل بڑی خبر کی طرف قومی میڈیا نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ 
وہ اصل بڑی خبر یہ ہے کہ دو عشروں کے بعد ، شیخ رشید لال حویلی والے سے سرکاری پروٹوکول اور سکیورٹی واپس لے لی گئی ہے۔ 
شیخ جی کو کس سے خطرہ تھا؟ جن غیر ریاستی عناصر سے ملک بھر کو خطرہ ہے، وہ تو شیخ جی کے ’’ہمدرد‘‘ ہیں اور شیخ صاحب کے مدّاح یعنی وہی ٹی ٹی پی والے۔ شیخ جی کو سکیورٹی کی کبھی ضرورت نہیں تھی، سکیورٹی محض ان کی ’’ٹوھر‘‘ کے لیے تھی۔ شیخ جی دکھی نہ ہوں، جہاں گیٹ نمبر چار کی نوکری سے محرومی کے صدمے کو آپ نے برداشت کر لیا، وہاں اس ٹوھر سے محرومی کو بھی قبول کر لیں۔ ویسے بھی نئے سیاسی منظرنامے میں گنجائش ختم ہو گئی، بہرحال، زیادہ فکر نہ کریں، سیاسی آثار قدیمہ کے عجائب گھر میں آپ کی جگہ محفوظ رہے گی۔ 
_____________
کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں جماعت اسلامی کی شکایت پر 6 سیٹوں کے نتائج کی تحقیقات کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ جماعت کی شکایت یہ تھی کہ 9 سیٹوں پر پیپلز پارٹی نے ردّ و بدل کیا اور یہ سیٹیں اپنے حق میں کرا لیں۔ کراچی کے باخبر صحافیوں کا کہنا ہے کہ زیر تحقیقات سیٹوں پر اکثر میں جماعت کے حق میں فیصلہ آئے گا اور یوں اس کی سیٹیں پیپلز پارٹی سے بڑھ جائیں گی۔ فی الوقت پیپلز پارٹی کو جماعت پر 4 سیٹوں کی برتری ہے۔ جماعت کی 88 اور پی پی کی 92 ہیں۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ 
جو بھی نتیجہ آئے ، کراچی کے شہریوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ دونوں جماعتیں مل کر کام کریں۔ اس میں کراچی کا بھی فائدہ ہے، جماعت کا بھی، پی پی کا بھی۔ جماعت اور پی پی کے درمیان بہت تلخی ہے لیکن محض تلخی ہی ہے۔ ویسی دشمنی بہرحال نہیں ہے جو 70 سے 90 تک کی تین دہائیوں میں رہی۔ ’’کفر و اسلام‘‘ کی جنگ والا معاملہ تو سرے سے نہیں رہا۔ بصورت دیگر جماعت نے پی ٹی آئی سے اتحاد کر لیا تو کراچی بھی مزید تباہ ہو جائے گا اور جماعت بھی سراسر گھاٹے میں رہے گی۔ پی ٹی آئی کو 2018ء میں مہربانوں کی مہربانی سے 14 قومی اور 22 صوبائی سیٹیں ملیں، عوام نے اسے ووٹ نہیں دیا تھا۔ اب اس کو دلوائے جانے والے مینڈیٹ کا راز کھل گیا ہے۔ 
پیپلز پارٹی سیاسی جماعت ہے اور ملک کو دیوالیہ بنانے کے لیے بھی سرگرم نہیں ہے۔ پی ٹی آئی دونوں معاملات میں اس کے بالکل معکوس ہے۔ امید یہی ہے کہ جماعت اور پی پی دونوں باہمی سمجھوتہ کریں گی اور اس گروہ سے دوری رکھیں گی جو دانستہ ملک کو دیوالیہ کرنے کے لیے سرگرم بھی ہے اور بے چین بھی ۔
خواہی مخواہی ایک بات یاد آ گئی۔ عمران خان نے بطور وزیر اعظم کراچی کے لیے شاید 114 ارب روپے کا پیکج دیا تھا، اس کا کیا بنا؟۔ سنا ہے کہ کراچی سے پی ٹی آئی کے ایک ایم این اے (اب فارغ) نے اس میں سے اربوں کی جائیدادیں بنا لیں، فیصل واوڈا نے بھی ایک ٹی وی پروگرام میں نام لیے بغیر ان کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 
_________
خان صاحب نے بی بی سی کو انٹرویو دیا۔ آخری سوال یہ تھا کہ خان صاحب کیا موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے آپ کا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ خان صاحب نے جواب دیا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ 
خبریت خان صاحب کے جواب میں نہیں تھی، ان کے چہرے پر تھی جو بتائی نہیں جا سکتی محض دکھائی جا سکتی ہے جو بی بی سی نے دکھا دی، لوگوں نے دیکھ لی۔ 2014ء سے جاری رابطہ اب کٹ گیا، زمانے بھر کے دکھ سے یہ بڑا دکھ ہے۔ ادھر سابق سپیکر اور پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ عمران خان کو گرفتاری کا سامنا ہے۔ قیصر صاحب، یہ آپ نے خبر دی ہے یا ’’امید‘‘ ظاہر کی ہے؟ 
_________

epaper

ای پیپر-دی نیشن