تین فارمیٹ تین کپتان؟؟؟ بابر اعظم کے مسائل کی وجہ
پاکستان کرکٹ بورڈ نے نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز کے لیے شان مسعود کو نائب کپتان مقرر کیا تو ایک نیا تنازعہ پیدا ہوا۔ شان مسعود نائب کپتان ہونے کے باوجود پہلے دو ون ڈے میچز میں پلینگ الیون کا حصہ کا بن سکے، آخری میچ میں وہ کھیلے لیکن بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ انہیں نائب کپتان مقرر کرنے کے حوالے سے کرکٹ بورڈ نے کپتان بابر اعظم اور چیف سلیکٹر کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔ اسی دوران بابر اعظم کو بحیثیت کپتان محدود کرنے اور پاکستان ٹیم کے لیے ٹیسٹ ون ڈے اور ٹونٹی ٹونٹی کے الگ الگ کپتان مقرر کرنے کی خبریں بھی سامنے آئیں۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اس حوالے سے سوچ ضرور رہا ہے۔ یہ فلسفہ تھوڑا مختلف اور ہمارے طرزِ زندگی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ چونکہ لوگوں کو خالصتاً پیشہ وارانہ انداز میں کام کرنے کی عادت نہیں ہے ، لوگوں کو ایک دوسرے کے کاموں میں ٹانگیں اڑانے کی عادت ہے اس لیے تین مختلف کپتانوں کے حوالے سے فوری طور پر اچھا ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ بابر اعظم کو ہٹانے کی بات چیت یا انہیں تبدیل کرنے کی سوچ کیوں آئی۔ وہ بھی ان حالات میں کہ جب اُن کا شمار پاکستان میں نہیں دنیا کے بہترین کرکٹرز میں ہوتا ہے اور وہ گزشتہ تین چار برسوں سے بہترین کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ اس پہلو پر غور کرنے کی بجائے بابر اعظم کے حمایتی سرگرم ہوئے۔ سوشل میڈیا ٹرینڈز بنے ، ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں بابر اعظم کی حمایت کرنے لگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بابر اعظم کو کسی ایسی حمایت کی ضرورت ہے ، کیا بابر اعظم پاکستان ٹیم میں ایسی حمایت کی وجہ سے منتخب ہوئے ، کیا بابر اعظم کی کارکردگی سوشل میڈیا ٹرینڈز کی مرہون منت ہے ، کیا بابر اعظم کی صلاحیتیں اِن سوشل میڈیا ٹرینڈز کی وجہ سے ہیں ، ہرگز نہیں، وہ خدا داد صلاحیتوں کے مالک ہیں ، انہوں نے مسلسل محنت ، توجہ ، یکسوئی اور لگن سے یہ مقام حاصل کیا ہے، اس سفر میں مختلف ادوار ، مختلف لوگوں نے اُن کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے پاکستان کرکٹ کے بہتر مستقبل کی خاطر اُن کی رہنمائی کی اور اُنہیں سہولتیں فراہم کرنے کے لیے کردار ادا کیا۔ وہ لوگ نہ تو اُس وقت کسی ٹرینڈ کا حصہ تھے نہ آج کسی سوشل میڈیا مہم کے محتاج ہیں۔ اس وقت سارا وزن بابر اعظم پر ہے کہ کیا وہ اپنی ذمہ داریاں عمدہ اور احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں ، کیا وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں ، کیا وہ سب سے پہلے پاکستان کا سوچتے ہیں ، کیا وہ اپنے فیصلوں سے ٹیم کے لیے مثال قائم کرتے ہیں ، کیا وہ اپنی پسند کو قومی مفاد کی خاطر قربان کرتے ہیں، اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر اُنہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کرکٹ میں سلیکشن کے حوالے سے دوستی یاری اور پسند نا پسند کے معاملے میں بہت زیادہ بات چیت ہوئی ہے۔ شعیب ملک ، عماد وسیم سمیت دیگر نمایاں کرکٹرز نے بھی اس حوالے سے متعدد بار خیالات کا اظہار کیا ہے۔ آخر کوئی وجہ تو ہے کہ ساتھ کھیلنے والے بھی بولنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین رمیز راجہ کے دور میں اس حوالے سے کھیل کو بہت نقصان پہنچا ہے، انہوں نے مخصوص کھلاڑیوں کو مکمل آزادی دی اور احتساب کو نظرانداز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس آزادی کا غلط فائدہ بھی اٹھایا گیا۔