• news

روس کے ساتھ تیل اور گیس کی درآمد سمیت  باہمی تعاون کے تین معاہدے


پاکستان اور روس نے مارچ 2023ءتک روس سے خام تیل اور گیس درآمد کرنے کے سودے کو حتمی شکل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ دونوں ممالک نے اس امر پر اتفاق کیا کہ تکنیکی لوازمات پورے ہونے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تیل اور گیس کی تجارت کے سودے کو باہمی فائدے کے مطابق تشکیل دیا جائیگا اور اس سارے عمل کو مارچ 2023ءتک مکمل کرلیا جائیگا۔ اس سلسلہ میں وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور سردار ایازصادق نے میڈیا کو بتایا کہ دونوں ممالک کے مابین معاہدہ کی ”کٹ آف ڈیٹ“ 31 مارچ 2023ءہے۔ انکے بقول ابھی ٹرانسپورٹ اور انشورنس کے ایشوز طے ہونے ہیں۔ 
پاکستان اور روس کے درمیان بارٹر ٹریڈ کا ایک معاہدہ پہلے سے موجود ہے اور روس نے اس کا جائزہ لینے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے کیونکہ پاکستان کے کسی بنک کی شاخ روس میں موجود نہیں اور نہ ہی کوئی روسی بنک پاکستان میں موجود ہے چنانچہ اس کرنسی کا ایشو بھی موجود ہے جس میں قیمت ادا کی جائیگی۔ ایازصادق کے بقول روس کے ساتھ اس وقت بھی آرایل این جی کی تجارت ہو رہی ہے۔ ہمیں روس سے اچھے ڈسکاﺅنٹ پر تیل ملے گا۔ اس حوالے سے دونوں ممالک کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ انرجی کی خریداری کی ادائیگی دوست ممالک کی کرنسیوں میں کی جائیگی۔ روس کے وزیر توانائی نکولے شولکینوف نے بھی پاکستان اور روس کے دوست ممالک کی کرنسیوں میں روس سے تیل‘ گیس کی خرید کی تصدیق کی ہے۔ روسی وزیر توانائی اسلام آباد میں پاکستان اور روس کے تجارت‘ معیشت‘ سائنس اور تکنیکی تعاون کے بارے میں بین الحکومتی کمیشن کے آٹھویں اجلاس کی صدارت کررہے تھے جبکہ اس اجلاس میں دونوں ممالک کے متعلقہ وزراءسمیت اعلیٰ سطح کے وفود نے شرکت کی اور ایک مضبوط اور جامع تعلقات کیلئے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ اسی اجلاس کے دوران پاکستان اور روس کے مابین مختلف شعبوں میں تعاون کے تین معاہدے طے پائے جس سے پاک روس تعلقات ہی مزید مستحکم نہیں ہونگے بلکہ دونوں ممالک کے ساتھ خطے کے اقتصادی تعاون کو بھی فروغ ملے گا۔ بے شک جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے استوار ہوئے گلوبل ویلج میں کوئی ملک دنیا سے الگ تھلگ رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا اور خطے کے ممالک کا باہمی تعاون ہی انکی ترقی‘ خوشحالی اور امن و استحکام کی بنیاد ہے۔ اس ناطے سے پاکستان روس تعلقات کا احیا اور انکے مابین مختلف شعبوں میں تعاون کے معاہدے علاقائی امن و استحکام کے حوالے سے بھی خوش آئند ہیں، بالخصوص پاکستان کیلئے ان معاہدوں کی اہمیت اس حوالے سے بھی زیادہ ہے کہ پاکستان گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ سے توانائی کے سنگین بحران کا شکار ہے جس نے ملک کی معیشت کو بھی جکڑ رکھا ہے اور بجلی‘ گیس کی قلت و گرانی نے شہریوں کی زندگیاں بھی اجیرن بنا رکھی ہیں۔ 
روس کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ہمارا ماضی تو ہرگز خوشگوار نہیں تھا کیونکہ قیام پاکستان کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان کے اپنے پہلے بیرونی دورے کیلئے سوویت یونین کی جانب سے موصول ہونیوالی دعوت پر معذرت کے اظہار اور امریکہ جانے کو ترجیح دینے سے پاک روس تعلقات میں ابتداءہی میں دراڑ پیدا ہوگئی جبکہ امریکی کیمپ میں جانے کے باعث پاکستان اور روس کے مابین سردمہری بڑھتی ہی چلی گئی جس میں مزید خرابی 70ءکی دہائی میں امریکہ اور روس کے مابین سرد جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے اور اس جنگ میں امریکی آلہ¿ کار کا کردار ادا کرنیوالے افغان مجاہدین کی سرپرستی کرنے کے باعث پیدا ہوئی۔ اس جنگ کے نتیجہ میں ہی سوویت یونین کے ٹکڑے ہوئے اور امریکہ اپنے تئیں دنیا کی واحد طاقت بن گیا جس نے پاکستان کو تعاون کا صلہ دینے کے بجائے افغان مجاہدین کا سارا بوجھ اسکے گلے ڈال دیا۔ یہی افغان مجاہدین طالبان کی شکل میں امریکہ کے گلے کی ہڈی بنے تو انکے قلع قمع کیلئے نیٹو فورسز کے ذریعے شروع کی گئی افغان جنگ میں بھی امریکہ نے پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنالیا جس کا نقصان ہمیں اپنے ہزاروں شہریوں کی شہادتوں اور ملکی معیشت کی تباہی کی صورت میں اٹھانا پڑا جبکہ امریکہ نے خود بھی ہمارے ساتھ دشمنوں جیسا برتاﺅ کیا۔ 
ہمارا پڑوسی بھارت شروع دن سے ہماری سلامتی کے درپے تھا اور سرد جنگ کے وقت تک روس کا دم بھرتے ہوئے سامراج مردہ باد کے نعرے لگایا کرتا تھا مگر افغان جنگ کے موقع پر اس نے اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر اپنا جھکاﺅ امریکہ کی جانب کرلیا۔ اس حوالے سے امریکی دہرا میعار بھی کھل کر سامنے آیا جس نے پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنانے کے باوجود اسکے کھلے دشمن بھارت کی سرپرستی شروع کردی۔ چنانچہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف اسکے حوصلے مزید بلند ہوئے۔ پاکستان نے اس سے قبل بھارتی جارحانہ عزائم کے توڑ کیلئے مئی 1998ءمیں ایٹمی دھماکے کئے تو بھی امریکہ نے پاکستان پر عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کراکے اسکی سلامتی کیخلاف بھارتی عزائم کو تھپکی دی۔ پھر جب پاکستان نے توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا تو بھی امریکہ نے ایران پر عائد کی گئی عالمی اقتصادی پابندیوں کے باعث اس معاہدہ کو روبہ عمل نہ ہونے دیا۔ 
بے شک توانائی کے بحران میں پاکستان کی اپنی کوتاہیوں اور ناقص منصوبہ بندی کا عمل دخل ہے کہ اس نے ہائیڈل بجلی کے تمام تر وسائل موجود ہونے کے باوجود مطلوبہ ڈیمز تعمیر کرنے کی جانب توجہ نہیں دی اور تھرمل بجلی کیلئے نجی کمپنیوں سے معاہدے کرکے ملک اور عوام کو نئے عذاب میں ڈالا گیا جبکہ پاکستان میں توانائی کا بحران بڑھانے میں بھارت اور امریکہ کی سازشوں کا بھی عمل دخل ہے جنہوں نے وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ توانائی کے حصول کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں۔ اس تناظر میں ہمیں بہرحال ملکی اور قومی مفادات کو پیش نظر رکھ کر اپنے قومی خارجہ تعلقات کی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت تھی جس کیلئے اس خطے میں امریکہ اور بھارت کے بڑھتے عمل دخل کی بنیادپر فضا ہموار ہوئی اور روس کے ساتھ ماضی کی سردمہری کی شدت میں بھی کمی آنا شروع ہوئی جو ہمارے لئے اس حوالے سے بھی خوش آئند ہے کہ ہمیں توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے روس سے بہتر شرائط پر معاونت حاصل ہو سکتی ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں روس کے ساتھ طے پانے والے باہمی تعاون کے تین معاہدے اسی سلسلہ کی کڑی ہیں جبکہ اس باہمی تعاون سے خطے کے دوسرے ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی راہیں بھی کھلیں گی جو بہرحال خطے میں امریکہ اور بھارت کے بڑھتے اثرورسوخ کے مقابل طاقت کا توازن قائم کرنے پر منتج ہونگے۔ اگر علاقائی تعلقات مضبوط اور مربوط ہو جائیں تو خطے کے ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی بدولت ہمیں انرجی کرائسس سے بھی نجات مل سکتی ہے، ہماری معیشت کو بھی سہارا حاصل ہو سکتا ہے اور ہم بالآخر آئی ایم ایف کے شکنجے سے بھی خلاصی پا سکتے ہیں اس لئے علاقائی تعاون کو مضبوط بنانا ہماری قومی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہونی چاہیے۔ 

ای پیپر-دی نیشن