• news

اتوار،29 جمادی الثانی 1444ھ، 22 جنوری 2023ئ


غیر ممالک سے 142 تحائف ملے‘ یورپی پارلیمنٹ کے صدر نے فہرست جمع کرا دی 
ہمارے کرنے والے کام وہ کر رہے ہیں جنہیں ہم کافر کہتے ہیں مگر وہ امانت داری اور دیانتداری میں ہم سے بہت بڑھ کر ہیں۔ وہاں جھوٹ اور دھوکہ ایک بڑا جرم سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس ہم مسلمان کہلاتے ہیں مگر امانت داری‘ دیانتداری سے کوسوں دور ہیں۔ جھوٹ اور دھوکے میں ہمیں مہارت تامہ حاصل ہے۔ ہم اسے چالاکی کہتے ہیں جبکہ دینی لحاظ سے یہ تمام شرعی عیوب ہیں مگر یہ ہمیںبہت مرعوب ہیں جبکہ امانت و دیانت شرعی محاسن ہیں مگر ہم ان دونوں سے دور ہیں۔ یہی دیکھ لیں توشہ خانہ کے حوالے سے‘ لیکن سیاست میں کیا غدر برپا ہے۔ عدالتوں میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔ توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف کوڑیوں کے بھاﺅ خرید کر مہنگے داموں بیچنے والے یا اپنے پاس رکھنے والے سابقہ اور موجودہ جماعتوں کے حکمران اپنی اس غلطی پر پردہ ڈالنے کیلئے اسے درست ثابت کرنے کیلئے طرح طرح حیلے تراش رہے ہیں۔ قانونی نکتے تلاش کر رہے ہیں۔ صفائیاں اور اس پر اپنا حق پیش کر رہے ہیں۔ گویا یہ انہیں ذاتی طورپر ملے۔ حالانکہ یہ صدر یا وزیراعظم پاکستان کے طورپر ملے تھے۔ ورنہ اربوں روپے مالیت کے تحفے تو کیا‘ اپنے ملک کا ویزابھی کوئی ان کو مفت نہ دے۔ اس کے برعکس یورپی یونین کے صدر کی مثال راست بازی اور دیانتداری دیکھیں انہوں نے ملنے والے 142 تحفوں کی فہرست پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرکے بتایا ہے کہ کن کن ممالک کے رہنماﺅں کی طرف انہیں ملے ہیں۔ نہ کوئی بہانہ‘ نہ عذر‘ نہ حرص‘ نہ دھوکہ جو جیسے آیا‘ بتا دیا۔ ہمارے حکمران بھی ان سے سبق سیکھیں اور کھایا پیا سب بتا کر سرخرو ہوں۔ یا تحائف جمع کرا دیں ورنہ پیسے لوٹا دیں۔
٭٭........٭٭
جاپان‘ امریکہ و برطانیہ بھی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان
یہ وہ ممالک ہیں جو آج تک مہنگائی کا شکار ممالک کو شکار کرتے چلے آئے ہیں۔ امداد‘ فنڈز ‘ قرضے کے نام پر ان کو پہلے رقم دیتے ہیں پھر اپنی سود خوری کے زلفوں کا ایسا اسیر بناتے ہیں کہ امداد‘ فنڈ اور قرضہ لینے والے غریب ممالک ان کے بچھائے مکڑی کے جال میں مکھی کی طرح پھنس جاتے ہیں۔ قرضوں یا امداد کے نام پر دی جانے والی رقوم پر جو سود یہ وصول کرتے ہیں‘ وہ سالہاسال ادا ہونے کے باوجود اصل زر یعنی قرضہ وہی رہتا ہے۔ مگر دو برس قبل کرونا نامی خدائی عذاب نے جہاں غریب اور کمزور ممالک کو ہلا کر رکھ دیا ہے‘ وہاں اس خدائی چابک نے بہت سے مضبوط معاشی حالت رکھنے والے ممالک کو بھی دہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس وباءکے بعد بڑی بڑی طاقتور معیشت کے حامل ممالک بھی بیروزگاری اور مہنگائی کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ کوئی تصور کر سکتا ہے کہ جاپان جیسا ملک میں جو اپنی جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے دنیا بھر کی مارکیٹ میں چھایا ہوا ہے‘ وہاں مہنگائی کا 40 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ برطانیہ‘ فرانس اور امریکہ جیسے خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی صورتحال خراب ہے۔ وہاں کے شہری احتجاج کر رہے ہیں اور وہیں خوراک اور دستیاب روزمرہ زندگی کی سہولتیں‘ ان کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ قوت خرید کم ہو گئی ہے۔ یہ تمام ممالک پریشان ہیں کیا کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب خدا کی پکڑ آتی ہے تو بڑا ہو‘ چھوٹا‘ کمزور ہو یا مضبوط‘ کوئی بھی اس کی گرفت سے بچ نہیں پاتا۔
٭٭........٭٭
نارنگ منڈی میں نامعلوم شخص نے نمازیوں کے جوتے جوہڑ میں پھینک دیئے
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ آج تک جوتے چوری ہونے کی وارداتوں کا سنا تھا مگر یہ جوہڑ میں پھینکنے کی واردات تو پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔ لگتا ہے یہ کوئی دماغی طورپر کھسکا ہوا شخص ہوگا ورنہ چور ہوتا تو سارے جوتے لے جا کر کباڑی کی دکان پر فروخت کرکے کچھ نہ کچھ کما لیتا۔ اب یہ گندے پانی میں جوتے پھینکنے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک دو ہوتے توکہا جا سکتا تھا کہ مخالف کے جوتے خراب کرنے کیلئے ایسا کیا مگر یہ سارے نمازیوں نے ایسا کونسا ظلم کیا تھا اس شخص پر کہ اس نے سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا۔ کچھ خوف خدا نہیں آیا اس کو۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ فاطرالعقل تھا۔ جمعہ کی نماز تو ویسے ہی سب لوگ ضرور ادا کرنے جاتے ہیں تاکہ اپنا نام لکھوائیں ہفت روزہ نمازیوں کی فہرست میں ورنہ اکثر تو صرف کاٹھ (چارپائی) کے غازی ہوتے ہیں۔ یعنی ان کی نمازجنازہ پڑھی جاتی ہے۔ بہت پہلے مولانا الطاف حسین حالی نے کیا خوب کہا تھا
اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت
اب اگر جیبوں کی جگہ ”جوتوں“ پڑھا جائے تو لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں اب نمازی جوتے مصلے کے آگے رکھتے ہیں۔ کسی نے اعتراض کیا تھا کہ مصلے کے آگے جوتے ہوں تو نماز نہیں ہوتی‘ جواب ملا اگر پیچھے رکھیں تو جوتے نہیں ہوتے۔ اس لئے عرصہ دراز سے مسجد کے دروازے پر کسی نہ کسی کی ڈیوٹی لگی ہوتی ہے کہ جوتوںپر نظر رکھے کہ کوئی اٹھائی گیرا آکر اٹھا نہ لے مگر ہمارے ہاں تو مساجد کے اندر سے بھی یہ عیار لوگ جوتے چرا لیتے ہیں۔ اب اس حالت میں ننگے پیر گھر جانے والوں سے ہم افسوس کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں۔
٭٭........٭٭
ڈیفنس کے مہنگے نجی سکو ل میں منشیات کے معاملے پر لڑکیوں کا سہیلی پر چھری سے حملہ و تشدد
یہ حال ہے ہماری ایلیٹ کلاس کے سکولوں کا جہاں عام آدمی کا داخلہ تو دور کی بات‘ اس کا نام بھی لیتے نہیں۔ منشیات فروش مافیا نے جان لیا ہے کہ عام چھوٹے سکولوں‘ کالجوں میں انہیں زیادہ منافع نہیں مل سکتا۔ وہاں والدین کی ابھی تک بچوں پر کڑ ی نظر ہوتی ہے۔ ویسے بھی ان سکولوں‘ کالجوں کے بچوں کے پاس بمشکل آنے جانے کیلئے کرایہ یا چائے کا ایک کپ لینے کے پیسے ہوتے ہیں۔ وہ بڑی مشکل سے نشہ کرنے کیلئے منشیات خرید سکتے ہیں جو بہرحال مناسب قیمت پر ہی دستیاب ہے۔ ان سکولوں‘ کالجوں کے اندر اور باہر یہاں جو بچے اس لت کا شکار ہوتے ہیں‘ وہ چوری چکاری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث ہوکر اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس پوش علاقوں میںقائم اشرافیہ کیلئے بنائے گئے سکولوں کالجوں میں یہ کیا ہو رہا ہے۔ یہاں تو سکیورٹی کے نام پر بھی ہزاروں روپے لئے جاتے ہیں تو یہاںمنشیات کیسے پہنچتی ہے۔ یہ بچے بھری جیب کے ساتھ سکول کالج آتے ہیں۔ ان کیلئے مہنگے داموں منشیات لینا کوئی مسئلہ نہیں۔ ان کے والدین بھی ان کی کڑی نگرانی نہیں کرتے کیونکہ ان کی توجہ ہمہ وقت پیسہ کمانے پر ہوتی ہے۔ اس لئے منشیات فروش مافیا نے ان پوش سکولوں‘ کالجوں کو ٹارگٹ کیا ہوا ہے۔ گزشتہ روز جس طرح گرلز کالج میں لڑکیوں نے اپنی سہیلی کو منشیات کے حوالے سے بری طرح زدوکوب کیا‘ چھری سے حملہ کیا‘ اس کی سونے کی چین چھین لی۔ اس کی ویڈیو دیکھنے کے بعد بھی کیا ہماری پولیس و سکول انتظامیہ ہوش میں نہیں آ ئے گی۔ کیا وہ یہ آگ اپنے گھر تک آنے کے انتظار میں ہے۔ خدارا اس منشیات فروش مافیا کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ سکولوں‘ کالجوں‘ یونیورسٹیوں میں منشیات فروخت کرنے والوں‘ سپلائی کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جائے اور کوئی سفارش قبول نہ کی جائے۔

ای پیپر-دی نیشن