حق یا خلاف کچھ تو آرڈر ہو گا درخواست واپسی کی استد عا پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس
اسلام آباد (وقائع نگار‘ آئی این پی) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت نے الیکشن کمشن کے توشہ خانہ ریفرنس میں فیصلے کے خلاف کیس واپس لینے کیلئے سابق وزیر اعظم عمران خان کی متفرق درخواست میں فریقین سے جواب طلب کر لیا۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ سینئر وکیل ہیں، آپ سے یہ توقع نہیں تھی۔ وکیل علی ظفرنے کہاکہ میں کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں، ایسا نہیں ہے جس طرح کا تاثر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے پھر مسکراتے ہوئے کہا کہ ڈیولز ایڈووکیٹ مووی کتنوں نے دیکھی ہوئی ہے؟، جس پر وہاں موجود فریقین کے وکلاء نے کہا کہ ہم نے دیکھی ہوئی ہے۔ محسن شاہ نواز رانجھا اور دیگر فریقین کے وکلاء نے درخواست واپس لینے کی مخالفت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے عدالت کے سامنے پیش کیے گئے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ21 اکتوبر کو الیکشن کمشن نے توشہ خانہ کیس میں فیصلہ دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہر کسی کا حق ہے جہاں وہ چاہے اس کے لیے پٹیشن فائل کر سکتا ہے، آج میں نے آپ کی پٹیشن واپس لینے کی درخواست پر فیصلہ کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے عمران خان کے وکلاء کو ہدایت کی کہ آپ اپنی پٹیشن سے متعلق بتائیں، کیا لاہور ہائیکورٹ نے کہا تھا الیکشن کمشن کا 21 اکتوبر والے فیصلے کو ٹچ نہیں کریں گے؟۔ جس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے کہا وہ الیکشن کمشن کے فیصلے کو ٹچ کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب اس طرح ہے تو پھر دو ہائیکورٹس میں یہ معاملہ زیر التوا تو ہو گا، آپ کے حق میں یا آپ کے خلاف آرڈر کروں کچھ آرڈر تو کروں گا، جو سپریم کورٹ کی ججمنٹس آئی ہیں ان کا کیا کروں، میں جو بھی آرڈر کروں گا وہ چیلنج بھی ہو سکے گا۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بہتر ہے فریقین کے وکلاء کو جواب فائل کرنے دیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا اگر آپ اس کیس کو رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، دو مختلف شہریوں نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کیں۔ چیف جسٹس نے کہا درخواست گزار نے کیا کیا وہ ہمیں بتائیں، کیا آپ نے بھی یہاں کے بعد وہاں درخواست دائر کی۔ بیرسٹرعلی ظفر نے کہا ہمیں وہاں درخواستوں میں فریق بنایا گیا اور نوٹسز جاری کئے گئے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ہر کسی کا حق ہے کہ وہ جہاں جانا چاہے، درخواست واپس لینے کی استدعا منظور کر کے ساتھ قانونی نتائج بھی لکھ دیتے ہیں، جو بھی قانونی نتائج ہوں گے وہ پھر لاہور ہائی کورٹ بھی دیکھ لے گی۔ عدالت نے عمران خان کی نااہلی کیخلاف درخواست پر فریقین کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 20 فروری تک ملتوی کر دی۔ بیرسٹر علی ظفر نے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ آزادی اظہار رائے کا حق ہوتا ہے۔ یہ آئین کے خلاف ہے کہ سیاسی بنیادوں پر آپ لیڈرشپ کو گرفتار اور ہراساں کرنا شروع کر دیں۔ مجھے نہیں معلوم فواد چودھری نے کیا کہا ہے۔ آزادی اظہار رائے میں آپ ایک لمٹ میں کچھ کہہ سکتے ہیں‘ اس سے زیادہ بولنے پر قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ان آرڈرز سے یہ تاثر ملتا ہے کہ الیکشن کمشن ایک ہی جماعت کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔