فواد چودھری لاھور سے گرفتار اسلام آباد منتقل
لاہور؍ اسلام آباد؍ جہلم؍ دینہ (نیوز رپورٹر+ خبر نگار+ وقائع نگار+ خصوصی نامہ نگار+ اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نامہ نگاران+ نوائے وقت رپورٹ) اسلام آباد پولیس نے پاکستان تحریک انصاف کے سینئر مرکزی نائب صدر فواد چودھری کو لاہور رہائش گاہ ٹھوکر نیاز بیگ سے گرفتار کرکے وفاقی دارالحکومت منتقل کر دیا۔ جہاں عدالت نے انہیں دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ انہیں تھانہ کوہسار اسلام آباد میں الیکشن کمشن کی جانب سے درج کرائے گئے مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اسلام آباد سے خصوصی نامہ نگار کے مطابق سیکرٹر ی الیکشن کمیشن آف پا کستان عمر حمید کی جانب سے تھانہ کوہسار اسلام آباد میں درج ایف آئی آر کے مطابق 24 جنوری کو نجی ٹی وی چینل پر فواد چودھری نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ الیکشن کمشن کی حیثیت ایک منشی کی ہو گئی ہے، اس حکومت میں الیکشن کمشن آف پاکستان کو فون کیا جاتا ہے اور وہ الیکشن کمشنر جو ہے وہ کلرک کی طر بیٹھ کر اسی وقت دستخط کر کے بھیج دیتا ہے۔ ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ فواد چودھری نے کہا ہم الیکشن کمشن، ان کے ممبران کو ان کے خاندانوں کو اور یہ جو لوگ ہیں ان کو وارن کرتے ہیں کہ اگر ہمارے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ ہوا تو یہ زیادتیوں کا سلسلہ آپ کو واپس پے کرنا پڑے گا۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشن کے دیگر ممبران اور ان کے خاندانوں کو ڈرایا اور دھمکایا گیا ہے اس طرح ریاست کے انتخابی عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس تقریر سے الیکشن کمشن کے ممبران اور ان کے خاندانوں کی زندگی کیلئے ایک مستقل خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ فواد چودھری کیخلاف درج مقدمے میں کار سرکار اور دھمکی دینے کی دفعات شامل ہیں، مقدمے میں 153اے ، 124اے ، 505 اور 506 کی دفعات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اسلام آباد پولیس نے فواد چودھری کو لاہور کی مقامی عدالت میں جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا اور اسلام آباد منتقل کرنے کیلئے راہداری ریمانڈ کی درخواست کی۔ عدالت نے ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں اسلام آباد میں متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ فواد چودھری کی پیشی کے موقع پر وکلاء کی جانب سے پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چودھری نے کہا کہ اتنی پولیس میرے پیچھے لگائی ہے جیسے جیمز بانڈ کو پیش کر رہے ہیں، میرا راہداری ریمانڈ نہیں بنتا میرا میڈیکل بھی کروایا جائے، اگر یہ بغاوت ہے تو پورے 22 کروڑ عوام کو یہ بغارت کرنی چاہئے، الیکشن کمشن پر تنقید جاری رکھیں گے۔ عدالتی حکم پر فواد چودری کا سروسز ہسپتال میں میڈیکل کرایا گیا۔ حماد اظہر، اعجاز چودھری اور شہباز گل بھی ہسپتال میں موجود تھے۔ اسلام آباد سے اپنے سٹاف رپورٹر کے مطابق ترجمان اسلام آباد کیپیٹل پولیس نے بدھ کی صبح 9 بجکر 14 منٹ پر تھانہ کوہسار میں درج کی گئی ایف آئی آر جاری کی جس کے ساتھ ترجمان پولیس نے بیان جاری کیا کہ ایف آئی آر کے مطابق فواد چوہدری نے چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کو ان کے فرائض منصبی سے روکنے کے لئے ڈرایا دھمکایا۔ فواد چوہدری نے آئینی اداروں کے خلاف شرانگیزی پیدا کرنے اور لوگوں کے جذبات مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے۔ مقدمے پر قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق فواد چودھری کا کہنا تھا حکومت میں جو لوگ شامل کیے جا رہے ہیں، سزا ہونے تک ان کا پیچھا کریں گے اور حکومت میں شامل لوگوں کو گھر تک چھوڑ کر آئیں گے۔ فواد چوہدری کے خلاف مذکورہ ایف آئی آر پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 153-اے (گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 506 (مجرمانہ دھمکیاں)، 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والا بیان) اور 124-اے (بغاوت) کے تحت درج کی گئی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما فرح حبیب نے فواد چودھری کو لے جانے والی سکیورٹی اداروں کی گاڑی کو روکنے کی کوشش کی جہاں ان کی اہلکاروں کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی۔ اس دوران فرخ حبیب نے لاہور ٹول پلازہ پر فواد چودھری کو لے جانے والی گاڑی کو روکنے کی کوشش کی جس پر فرخ حبیب اور پولیس اہلکاروں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ فرخ حبیب نے پولیس اہلکاروں کو کہا کہ فواد چودھری کو لاہور ہائیکورٹ نے پیش کرنے کا حکم دیا ہے، ہم عدالتی احکامات کی خلاف ورزی نہیں کرنے دیں گے۔ دریں اثناء جہلم میں فواد چوہدری کی گرفتاری کے خلاف پی ٹی آئی کارکنان نے جی ٹی روڈ پر احتجاج کیا جس میں فواد چوہدری کے بھائی فراز چوہدری اور سابق ایم پی اے چوہدری ظفر بھی موجود تھے۔ پولیس نے احتجاج کے مقام سے فراز چوہدری کو گرفتار کر لیا۔ تاہم فراز چوہدری کی ضمانت منظورکرلی گئی۔ علاقہ مجسٹریٹ وقاص وڑائچ نے فراز چوہدری کے رہائی کے احکامات جاری کردیئے ہیں۔ فواد چوہدری کے بھائی فراز چوہدری پارٹی کے ضلعی جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔ عدالت پیشی کے موقع پر فواد چودھری کا میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا جس طرح گرفتار کیا گیا وہ مناسب نہیں تھا مجھے یہ فون کرتے میں خود ہی آ جاتا۔ مجھے گرفتار کرنے والوں کو شرمندگی ہو گی۔ فواد چودھری نے آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور چیف جسٹس پاکستان سے اپیل کی ہے کہ ان کی گرفتاری کا نوٹس لیا جائے۔ فواد چودھری نے کہا وہ نوٹس لیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ زیادتی کے خلاف بولنا بغاوت نہیں ہے۔ فواد چودھری کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ فواد چودھری کو جھوٹے مقدمے میں گرفتار کیا گیا۔ وہ ایسی حرکتوں سے نہیں جھکیں گے۔ عدلیہ سے گرفتاری کا نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کردیا۔ اہلیہ فواد چودھری حبا فواد نے نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ صبح سویرے فواد چودھری کو گرفتار کیا گیا، ہماری گاڑی کی چابی دور پھینک دی گئی، فواد چودھری کے ساتھ غیر مناسب سلوک کیاگیا۔عدلیہ سمیت تمام ادارے فواد چودھری کی گرفتاری کا نوٹس لیں۔ فواد چودھری کے بھائی فیصل چودھری کا کہنا ہے کہ فواد چودھری کو بغیر وارنٹ گرفتار کیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے فواد چوہدری کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ فواد چودھری کی گرفتاری جمہوریت، قانون کی بالادستی پر طمانچہ ہے، گرفتاریوں سے حوصلے پست نہیں ہوں گے، ہمیں اب اپنے بنیادی حقوق کے لیے کھڑا ہونا چاہئے۔ خدارا پاکستان کے ساتھ کھلواڑ بند کیا جائے، ورنہ حالات کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ فواد چودھری کی گرفتاری جمہوریت اور قانون کی بالادستی پر طمانچہ ہے۔ شیریں مزاری نے فواد چوہدری کی گرفتاری کو شرمناک قرار دیا۔ حماد اظہر نے کہا کہ فواد ہمیشہ قانون اور آئین کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کو گرفتار کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی تھی، عمران خان کے گھر کے باہر ہمارے کارکن 24 گھنٹے موجود رہیں گے۔ تحریک انصاف وسطی پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا گرفتاری سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے ۔ تحریک انصاف کے مرکزی نائب صدر سینیٹر اعجاز احمد چوہدری نے کہاکہ چیئرمین عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو امپورٹڈ حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ فواد چوہدری کی گرفتاری قابل مذمت ہے۔ جمشید اقبال چیمہ نے کہا عوام اپنی نسلوں کے سکھ کیلئے دہائیوں سے مسلط مافیاز سے ٹکر لینے کا واضح فیصلہ کر چکے ہیں۔ فیاض الحسن چوہان نے کہا فواد چوہدری کی گرفتاری انتہائی قابل مذمت ہے۔ زرتاج گل وزیر نے کہا ہے کہ فواد چوہدری کی گرفتاری نہیں ہوئی، یہ اغوا ہے۔ اسد عمر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سچ کڑوا ہوتا ہے اور فواد سچ بولتا ہے، ان کی حراست کی بس یہی ایک وجہ ہے۔ اسلام آباد سے وقائع نگار کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ و ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنزنے سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ فواد چوہدری کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے فوری رہائی کا مطالبہ کردیا۔ مذمتی نوٹس میں کہاگیا ہے فواد چوہدری سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل ہیں، جن کی گرفتاری کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ دینہ سے نامہ نگار کے مطابق فواد چوہدری کی گرفتاری پر دینہ میں ان کے بھائی چوہدری فوق شیرباز کی قیادت میں جی ٹی روڈ دینہ پر احتجاج کیا گیا جہاں حکومت کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ بعد ازاں چوہدری فوق شیر باز کی قیادت میں قافلہ جہلم کی طرف روانہ ہو گیا، جہاں جہلم پولیس نے احتجاج کرنے پر چوہدری فوق شیرباز ، فراز چوہدری، مسعود بٹ ہڈالی دینہ، چوہدری محمد انور ہڈالی دینہ، چوہدری سعید مونن، ملک نسیم، خاور وجاہت سمیت دیگر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ جہلم سے نامہ نگار کے مطابق گرفتاری کے خلاف جہلم میں پی ٹی آئی کے کارکنوں مرد وخواتین نے جی ٹی روڈ بلاک کرکے ٹائر جلاکر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ گاڑیوں کی لمبی لائنیں لگ گئی تھیں۔ جہلم پولیس نے مذاکرات کے ذریع پی ٹی آئی کارکنوں کو منتشر کرنے کی کوشش کی لیکن کارکنان فواد چوہدری کی رہائی تک سڑک بلاک کرنے پر بضد تھے جس کے بعد پولیس کی بھاری نفری نے موقع پر پہنچ کر فواد چوہدری کے بھائی فراز چوہدری کو حراست میں لیا تو دیگر کارکن دیکھتے ہی دیکھتے منتشر ہوگئے۔ جس کے بعد ٹریفک کی روانی بحال ہوگئی۔ فراز چوہدری کو تھانہ منتقل کیا گیا جس کے بعد ہسپتال سے میڈیکل کے بعد علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا تو عدالت نے پچاس ہزار مچلکوں پر فراز چوہدری کو رہا کر دیا۔دوسری طرف اسلام آباد کی مقامی عدالت نے فواد چودھری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر دو روزہ ریمانڈ منظور کر لیا۔ قبل ازیں اسلام آباد کی ایف ایٹ کچہری میں رش ہونے اور جگہ تنگ ہونے کے باعث کمرہ عدالت تبدیل کیا گیا۔ مجسٹریٹ نوید خان نے کیس سنا۔ سماعت شروع ہونے پر فواد چودھری کو کمرہ عدالت میں ہتھکڑی لگا کر پیش کیا گیا جس پر پی ٹی آئی کے وکلاء نے ان کی ہتھکڑی کھولنے کی استدعا کی۔ دوران سماعت تفتیشی افسر نے فواد چودھری کے 8 دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔ الیکشن کمشن کے وکیل سعد حسن نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ فواد نے کہا الیکشن کمشن کی حالت اس وقت منشی کی ہے۔ اس پر فواد چودھری نے لقمہ دیا کہ تو الیکشن کمشن کی حالت منشی کی ہوئی ہے۔ عدالت نے فواد چوہدری کو لقمہ دینے سے ٹوک دیا۔ وکیل الیکشن کمشن نے کہا کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت الیکشن کمشن کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، فواد چوہدری کی تقریر کا مقصد سب کو اکسانا تھا، انہوں نے کہا الیکشن کمشن والوں کے گھروں تک پہنچیں گے، تقریر کا مقصد الیکشن کمشن کے خلاف نفرت کو فروغ دینا تھا۔ وکیل الیکشن کمشن کے مطابق فواد چوہدری کے خلاف کافی الیکٹرانک مواد موجود ہے، میں الزامات پڑھ رہا تھا تو وہ انشاء اللہ، ماشاء اللہ کہہ رہے تھے، انہوں نے جو تقریر میں کہا وہ انہوں نے مانا بھی ہے، کیا فواد چوہدری سے متعلق فیصلہ کرنا درست نہیں؟۔ ان کی تقریر کے پیچھے لوگوں کا پتا کرنا ہے، ان کی تقریر کے پیچھے مہم چل رہی ہے، فواد سے ان کے بیان پر پولیس کو ابھی تفتیش کرنی ہے۔ فواد چوہدری نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ مقدمے میں بغاوت کی دفعہ بھی لگادی گئی ہے، میرے خلاف تو مقدمہ بنتا ہی نہیں ہے، ایسے تو جمہوریت ختم ہو جائے گی، مدعی وکیل کا مطلب ہے کہ تنقید کرنا بغاوت ہے، میں تقریر کر ہی نہیں رہا تھا، میں میڈیا ٹاک کررہا تھا، میری باتیں غلط کوٹ کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں تحریک انصاف کا ترجمان ہوں، جو میں بات کروں وہ میری پارٹی کی پالیسی ہوتی ہے، ضروری نہیں کہ جو میں بات کروں وہ میرا ذاتی خیال ہو، الیکشن کمشن نہ ملک کی سٹیٹ ہے نہ حکومت ہے، میں نے کہا تھا نفرتیں نہ پھیلائیں کہ لوگ ذاتی سطح پر آ جائیں، مجھے لاہور پولیس نے گرفتار کیا، میرا موبائل قبضے میں لیا پھر لاہور پولیس نے مجھے اسلام آباد پولیس کے حوالے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں سینئر وکیل، پارلیمنٹیرین اور سابق وفاقی وزیر ہوں، میں دہشت گرد نہیں کہ مجھے سی ٹی ڈی میں رکھا گیا، تفتیشی افسر نے مجھ سے کوئی تفتیش نہیں کی، میری گرفتاری غیرقانونی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افسوس ہے ملکی سیاست میں مخالفین پر کیس بنائے جارہے ہیں، ہم سیاست میں کبھی اوپر تو کبھی نیچے ہوتے ہیں۔ فواد چوہدری نے عدالت سے کیس برخاست کرنے کی استدعا کی۔ بعد ازاں ڈیوٹی مجسٹریٹ اسلام آباد نوید خان نے فواد چودھری کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ دیدیا اور انہیں 27 جنوری (کل) پھر پیش کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے سماعت کے بعد کئی گھنٹے تک فیصلہ محفوظ کر لیا تاہم ساڑھے گیارہ بجے کے بعد محفوظ فیصلہ سنا دیا۔ علاوہ ازیں شاہ محمود نے اپنے ٹویٹ میں بھی کہا کہ کارکن زمان پارک پہنچیں، عمران خان کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے ۔مزید براں سینٹرل سیکرٹریٹ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے مرکزی رہنما فواد چوہدری کی گرفتاری پر ردعمل میں ڈاکٹر شیریں مزاری نے زلفی بخاری اور فواد چوہدری کی اہلیہ ہبہ فواد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اگر فواد چوہدری نے سیکرٹری الیکشن کمیشن کیلئے 'کلرک' یا 'منشی' کے الفاظ استعمال کیے ہیں تو اس میں کچھ غلط نہیں ہے۔ کٹھ پتلی حکومت اور ان کی ڈوریاں ہلانے والے پاکستان میں کرنا کیا چاہتے ہیں؟۔ دہشت گردوں کی بجائے آپ سیاستدانوں کو پکڑ رہے ہی۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ اگر فواد چوہدری نے ان کو منشی کہا ہے یا ان کو خبردار کیا ہے تو یہ سیاسی بیان بازی کا حصہ ہے۔ اس موقع پر فواد چوہدری کی اہلیہ ہبہ فواد کا کہنا تھا کہ انہوں نے جس طریقے سے فواد چوہدری کو 5:45 بجے کے قریب اغوا کیا اس موقع پر گھر کے گیراج کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے۔ ایسے نہیں ہو سکتا کہ آپ 10،12 بندے لے کر کسی کے گھر میں گھس جائیں ان کو ویگو میں ڈالیں اور اٹھا کر چل پڑیں، تین گھنٹے تک اہلخانہ کو معلوم ہی نہ ہو سکا کہ ان پر کس چیز کی ایف آئی آر ہوئی ہے‘ چیف جسٹس اس پر ازخود نوٹس لیں۔
فواد چودھری گرفتار