ناشکرے سرمایہ دار
جب کبھی اس بات کا جائزہ لینے بیٹھیں کہ قیام پاکستان کے وقت ملک میں کیا تھااور ذاتی حیثیت میں ہم اور ہمارے آباءو اجداد کے پاس کیا تھا؟ تو جائزے کے بعد جواب شکر الحمدﷲ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔گزشتہ روز قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس کے چیئرمین رکن قومی اسمبلی قیصر احمد شیخ کی رہائش گاہ پر ایک عشائیہ منعقد کیا گیا جس میں انفرادیت یہ تھی کہ وہاں بڑے بڑے صنعت کار اور بڑے بڑے جاگیردار سب موجود تھے اور موضوع ملکی معیشت ہی تھا۔ مقررین نے اپنی اپنی رائے دی لیکن وہاں جن شخصیات نے مجھے متاثر کیا ان کے خطاب کا نچوڑ یہی تھا کہ ہم سرمایہ دار ناشکرے ہیں اور اگر جائزہ لیں تو اس ملک نے ہمیں ہماری توقعات سے بڑھ کر دیا ہے۔ قیصر احمد شیخ کی یہ کاوش خوشگوار تھی اور ان کی کوشش تھی کہ معیشت کو لاحق درپیش مشکلات کا احاطہ کیا جاسکے۔ میں ایک مزدور کا بیٹا ہوں جس نے اوائل عمر میں انتہائی مفلسی دیکھی ہے اور اپنے کیریئر کا آغازمڈل پاس کرنے کے بعد روزانہ اجرت 1روپے سے کیا۔ پھر بطور ٹرک کلینر 60روپے ماہانہ او رپھر بطور ٹرک ڈرائیور 300روپے ماہانہ سے کیا۔1974ءمیں 25000 روپے سے اپنے کاروبار کا آغاز کیااور اسی ملک میں رہ کر محنت و مشقت اور اﷲ پاک کے فضل و کرم سے آج میں اپنے رب کا شکر گزار ہوں کہ مجھے بہترین کاروبار اور سماجی حیثیت سے نوازرکھا ہے۔ میرے زیادہ رشتہ دار برطانیہ میں مقیم ہیں لیکن میں نے پاکستان میں رہ کر ان برطانوی شہریوں سے زیادہ کاروباری ترقی کی ہے۔ یہ ملک نعمت خداوندی ہے اور ایسا ملک دنیا میں کہیں بھی نہیں۔ اگر اب بھی ہم اس ملک کو دوش دینے بیٹھیں اور کفران نعمت کریں تو ہم سے بڑا ناشکرا کوئی بھی نہیں ہوگا۔ ہر ایک شخص کو چاہئے کہ اپنی ابتداءسے اب تک کی زندگی اور عطاءکی گئی نعمتوں کا جائزہ لے اور پھر اس ملک کا شکر گزار بنے اور اپنے رب کا شکر ادا کرے جس نے ہمیں پاکستان جیسی نعمت سے نوازا ہے۔بڑے بڑے جاگیردار گھرانوں کی قیام پاکستان کے وقت معاشی و سماجی حالت کیا تھی؟ اور آج ان کے رہن سہن اور معاشی حالات کا جائزہ لیں تو اس ملک اور اپنے رب کے شکر گزار ہوں گے۔ اسی طرح صنعت کار گھرانوں کی قیام پاکستان کے وقت کی حالت کیا تھی؟ کئی صنعت کار گھرانوں کا آغاز تو آج سے کچھ دہائی قبل اس وقت ہوا جب انہوں نے اپنی پہلی پہلی انڈسٹری‘ مل کا آغاز کیا اور آج ان صنعت کار گھرانوں کی انڈسٹریز کی تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
جہاں ہم اپنی معاشی و سماجی حیثیت میں انقلابی بہتری کا جائزہ لے لیں تو اسکے بعد ہمیں اس بات کا جائزہ بھی لے لینا چاہئے کہ ہم نے اس ملک کو ان نعمتوں کے بدلے میں کیا دیا؟ آج پاکستان اور افغانستان کی ٹیکس ادائیگی کی شرح دیکھیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ایسا ملک جو گزشتہ 5دہائیوں سے میدان جنگ بنا ہوا ہے پھر بھی وہاں کے عوام پاکستان سے زیادہ ٹیکس کی ادائیگی کرتے ہیں لیکن ہم سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ملک کو کچھ دینے سے کتراتے ہیں۔ تمام سرمایہ داروں سے سوال یہ بنتا ہے کہ بطور جاگیردار آپ اپنی زرعی آمدنی پر ملک کو منصفانہ ٹیکس دے رہے ہیں؟ بطور صنعت کار آپ اپنے ملک سے مخلص ہوکر ٹیکس چوری تو نہیں کر رہے؟ میرے خیال سے 90 فیصدسرمایہ دارملک کو اسکا حق دینے سے گریزں ہیں۔ اس بات کا جائزہ لیں کہ ملک اس وقت قرضوں کی دلدل میں توپھنسا ہے لیکن ان قرضوں کی نسبت ملک نے ہر ہر شعبے میں کس قدر انقلابی ترقی کی ہے۔دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ اس وقت سب سے بڑا مقروض ملک ہے لیکن امریکہ میں ہر شہری منصفانہ طور پر اپنے ملک کو ٹیکس دیتا ہے اسی لئے دنیا کے سب سے بڑے مقروض ملک کو کہیں بھی کوئی یہ نہیں کہتا اور لکھتا کہ امریکہ قرضوں کے گرداب میں پھنس گیا ہے اور اب امریکہ ختم ہوجائے گا کیونکہ وہاں کے سرمایہ دار اپنے ملک سے مخلص ہیں اور وہاں کی معیشت کا پہیہ اسی تناسب سے چل رہا ہے جس قدر قرضوں کا بوجھ ہے لیکن اسکے برعکس ہمارے ملک میں قرض لیکر اپنا معیار زندگی تو بلند کردیا گیا اور قیام پاکستان کے وقت مزدوری کرنےوالے اب بڑے بڑے سرمایہ دار بن چکے ہیں لیکن وہ اس بلند معیار زندگی کے بدلے اپنے ملک کو کچھ واپس کرنے کو قطعی تیار نہیں ہیں۔قیام پاکستان کے وقت بھارت نے پاکستان کو کس قدر فوجی ساز و سامان دیا تھا؟ اس وقت ملک میں کتنے بحری جہاز‘ جنگی جہاز اور اسلحہ تھا؟
قیام پاکستان کے وقت ہمارے ملک میں کتنے کالج‘ یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے تھے؟ ہمارے ملک کو قیام کے وقت کتنے بڑے اسپتال ملے؟ ملک بھر میں کتنے کلومیٹرز پر مناسب سڑکیں تھیں؟ دور دراز دیہات میں بجلی‘ پانی‘ گیس ‘ تعلیم و صحت‘ سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کی کون سی سہولیات دستیاب تھیں؟اس بات کا جائزہ ہر ایسے شخص کو لینا چاہئے جو اس ملک میں بیٹھ کر اور خود کو پارسا بناکر پاکستان کی برائیاں کرتا ہے۔
بلوچستان میں پسماندگی سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن باقی پاکستان میں قیام پاکستان سے اب تک نمایاں ترقی ہوئی ہے۔ اس ملک میں پالیسیاں ہمیشہ سرمایہ دار کے تحفظ کیلئے بنی ہیں۔ پالیسیوں کی تشکیل میں کہیں بھی عام غریب آدمی کا خیال نہیں رکھا گیا۔اب سرمایہ دار پر اپنے رب کا شکر ادا کرنا واجب ہے ۔ اس ملک نے انہیں جو کچھ دیا ہے اس کا کم از کم ایک فیصد ہی اس ملک کو دے دے تو یہ ملک تمام وقتی معاشی مشکلات سے نکل جائے گا۔