• news

کووڈ۔19 سے ایکس بی بی ۔15تک


کووڈ۔19 کے بارے میں بعض ترقی پذیر ممالک تاہنوز یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ کووڈ ایک ایسا خطرناک و جان لیوا وائرس ہے جسکے بارے میں چار برس گزرنے کے باوجود ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ دنیا بھر میں آناً فاناً پھیلا یہ وائرس ہے کیا؟ اس وبا پر مجھے آج پھر سے لکھنے اور آپ کو اسکے خطرات سے آگہی دینے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 2023ءکے آغاز کے ساتھ ہی کووڈ کی ایک اور نئی خطرناک لہرنے برطانیہ‘ امریکہ‘ کینیڈا اور بعض یورپی ممالک سمیت پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی پنجے گاڑنا شروع کر دیئے ہیں۔ 
ایکس بی بی۔ 15 نامی اس وائرس کی تحقیق پر مامور ماہرین کے مطابق یہ نئی Variant پہلی لہر اومی کرون سے بھی زیادہ خطرناک ہے جس نے چین کو ایک مرتبہ پھر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش میں اس لہر کے گو زیادہ کیسز ابھی سامنے نہیں آئے تاہم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اپنی حالیہ رپورٹ میں واضح کردیا ہے کہ ایکس بی بی۔15 سابقہ لہروں کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے۔ برطانیہ میں فلو‘ گلا خراب اور کووڈ کا سیزن چونکہ پہلے ہی جاری تھا اس لئے مسلسل فلو اور کھانسی کا کووڈ ٹیسٹ کٹ میں پازیٹو آنا اس بات کی دلیل ہے کہ فلو، کھانسی کے جراثیم کووڈ کا موجب بن رہے ہیں۔ برطانوی ہیلتھ اتھارٹی نے عوام کو آگاہ کردیا ہے کہ ہر شہری کو اب اپنے فیس ماسک کی کوالٹی تبدیل کرنا ہوگی کہ نئی وائرس سستے اور ہلکے کپڑے سے تیار کئے ماسک میں آسانی سے سرائیت کرسکتی ہے۔ 
لندن کے امپیریل کالج میں گزشتہ پانچ برس سے جاری کووڈ تحقیق گو جاری ہے تاہم اس جان لیوا وائرس پر بڑے پیمانے پر تحقیق کرنیوالی امریکی ایجنسیوں نے اب تک کی گئی اپنی تحقیق کے بعد یہ اقرار کیا ہے کہ بھرپور کوشش کے باوجود کووڈ۔19 اور اس سے پھیلنے والی مزید خطرناک لہروں کی بنیادی وجوہات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکیں۔ وائرس کو چمگادڑوں‘ سانپوں یا مینڈکوں سے جوڑنا اس لئے بھی حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا کہ مذکورہ جانور سے بیماری کے پھیلاﺅ کی معلومات بدستور کم اور مفروضوں پر مبنی ہیں اس لئے اس وائرس اور اس سے مزید جنم لینے والی لہروں پر تحقیقات جاری رکھنے کا عمل ناگزیر ہے۔ قارئین کا حافظہ اگر کمزور نہ ہو تو انہیں یاد ہوگا اکتوبر 2019ءمیں چین کے شہر وہان سے مبینہ طور پر جب اس وبا کے پھیلنے کی اطلاعات آئیں تو اس جان لیوا وائرس کے حوالے سے کئی غلط خبریں بھی دنیا بھر میں پھیلا دی گئیں۔ ڈیلٹا اور لیمبڈا نامی وائرسز پھیلتے ہی اموات میں جب مزید اضافہ ہونے لگا تو اس جان لیوا وائرس پر تحقیقات کرنیوالے عالمی صحت کے مختلف اداروں نے بڑھتی اموات پر قابو پانے کیلئے موڈورنا‘ ایسٹرازینکا اور فائزر بوسٹر کو فوری طور پر متعارف کروانے کا اعلان کیا تاکہ انسانی قوت مدافعت پر کووڈ۔19 کے مرتب ہونیوالے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ میں نے ہاتھ جوڑ کر اس وقت بھی منت کی تھی کہ اس وائرس کے بارے میں زیادہ انحصار دیسی ٹوٹکوں‘ ٹونوں‘ پھونکوں‘ سوکھے پتوں‘ تعویزوں اور دم درود پر نہ کریں بلکہ احتیاطی تدابیر ہی کو اس وبا کا علاج تصور کریں۔ مگر اس وقت بھی شعبہ افواہ سازی سے منسلک میرے بعض بے روزگار دوستوں نے راتوں رات ایسے ”سٹیریو ٹائپ“ علاج دریافت کرنے کا دعویٰ کر دیا جس کا اس جان لیوا وبا سے دور کا بھی تعلق نہ تھا تاہم ان ٹوٹکوں کی قیمت پر ان دوستوں کی بے روزگاری کے چند روز اچھے گزرے۔ میرے لئے یہ امر چونکہ تکلیف دہ تھا اسلئے میں نے کووڈ۔19 کے بارے میں برطانوی پاکستانیوں کو مزید آگہی دینے کیلئے اپنے چند لفظوں کو زبان دی جو آپ سے شیئر کرنا آج ضروری ہے۔
ہوا خشک کھانسی فلو کے ہمراہ بخار
سمجھ لو”کرونا“ کے ہو گئے شکار
رکھنا اب فاصلہ ضروری ہے
دور رکھنا وبا ضروری ہے
چھوڑ دو بوسہ و بغل گیری
جان کی اب بقاءضروری ہے
بھول جاﺅ یہ ”پب‘ ”کلب“ شیشہ
زندگی کا بھلا ضروری ہے
اس پر کرنا عمل بھی نورانی
جو بھی تم نے کہا ضروری ہے
نئی پھیلنے والی XBB.15 پر کی جانیوالی ابتدائی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس وائرس کا بنیادی تعلق اومیکرون کی بدلنے والی Sub-Variant سے ہے جسے عام الفاظ میں KRAKEN کا نام دیا گیا ہے۔ فلو‘ گلا خراب‘ ہلکی کھانسی‘ چھینکیں اور بخار اس نئی Variant کی بنیادی علامات ہیں جسکے بارے میں زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت اس لئے بھی نہیں کہ موسم سرما کی شدید سردی میں کھانسی‘ فلو معمول کا حصہ تصور کئے جاتے ہیں مگر اس بات کو ہرگز نظرانداز نہ کریں کہ یہ علامات کووڈ۔19 کی نئی لہر سے نمودار ہو رہی ہیں۔ گھر اور باہر فیس ماسک پہنے رکھنا‘ پیراسیٹامول کا استعمال اور سات روز تک گھر میں مکمل آرام کرنا ہی اس نئی لہر سے چھٹکارا حاصل کرنے کا اعلاج ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ مذکورہ علاج ان مریضوں کیلئے ہے جو کووڈ انجکشن‘ بوسٹر اور فلو انجکشن لگوا چکے ہیں کہ یہ علاج محض قوت مدافعت بڑھانے کا ہے۔ اس وبا کے پھیلنے کی بنیادی وجوہات کب معلوم ہونگی‘ کتنا عرصہ درکار ہوگا‘ اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ 

ای پیپر-دی نیشن