نریندر مودی سے متعلق بی بی سی کی دستاویزی فلم
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں پہلے تو پاکستان اور بھارت سے ہی ایسی آوازیں سننے کو ملتی رہی ہیں کہ وہ گجرات کے فسادات کے لیے براہِ راست ذمہ دار ہیں اور انھوں نے ان فسادات کو بڑھاوا دینے میں بنیادی کردار ادا کیا لیکن اب برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم نے بھی اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔ India: The Modi Question کے عنوان سے بننے والی یہ دستاویزی فلم دو اقساط میں بی بی سی ٹو نامی چینل پر نشر کی گئی۔ اس دستاویزی فلم کے منظرِ عام پر آتے ہی نریندر مودی کی سربراہی میں چلنے والی بھارتی حکومت سیخ پا ہوگئی اور اس نے اپنے شہریوں کی اس فلم تک رسائی روکنے کے لیے ایمرجنسی قوانین کا نفاذ کردیا ۔ اس صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت نہ صرف خود عوام سے حقائق چھپانا چاہتی ہے بلکہ اگر کوئی غیر ملکی ادارہ ایسا کرنا چاہے تو اس کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اس دستاویزی فلم میں نریندر مودی کے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں مختلف عہدوں پر عمودی سفر اور پھر گجرات کے وزیراعلیٰ بننے تک کی داستان کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس فلم میں خصوصی طور پر مودی کے گجرات میں 2002ءمیں مذہبی بنیادوں پر ہونے والے فسادات میں کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جسے بنیاد بنا کر بھارتی حکومت نے اس فلم کو بھارت کے خلاف بی بی سی کا پروپیگنڈا قرار دے کر اپنے ملک میں اس کی نمائش پر پابندی عائد کردی ہے۔ بھارتی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے سینئر مشیر کنچن گپتا کہتے ہیں کہ حکومت نے ٹوئٹر اور یوٹیوب پر موجود ایسے درجنوں اکاو¿نٹس کو بند کرنے کے احکام جاری کردیے ہیں جن کے ذریعے اس دستاویزی فلم کے کچھ حصے شیئر کیے گئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس فلم میں بے بنیاد الزامات لگا کر بھارت کی خودمختاری اور سالمیت کو سبوتاژ کیا گیا ہے۔
بھارتی حکومت اس دستاویزی فلم کی وجہ سے کس قدر برہم ہے اس کا اندازہ کنچن گپتا کے ٹوئٹر پر جاری اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے:
Videos sharing BBC World hostile propaganda and anti-India garbage, disguised as ‘documentary’ on YouTube, and tweets sharing links to the BBC documentary have been blocked under India’s sovereign laws and rules.
(ان ویڈیوز پر جن میں بی بی سی ورلڈ کا مخاصمانہ پروپیگنڈا اور بھارت مخالف گند پیش کیا گیا ہے، جسے یوٹیوب پر ’دستاویزی فلم‘ کا روپ دیا گیا ہے، اور ان ٹویٹس پر جن میں بی بی سی کی دستاویزی فلم کے لنکس دیے گئے ہیں، بھارت کی سالمیت کے قوانین و ضوابط کے تحت پابندی لگادی گئی ہے۔)
دوسری جانب، بی بی سی کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ دستاویزی فلم ’اعلیٰ ترین ادارتی معیارات کے مطابق چھان بین کر کے تیار کی گئی ہے‘۔ حکومت کے اس فلم پر پابندی عائد کرنے کے بعد بھارت کے مختلف حلقوں میں ان نکات پر بحث شروع ہوگئی ہے جنھیں اس پیشکش میں خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ اس حوالے سے بھارت کے مغربی ساحل پر واقع ریاست گجرات میں فروری اور مارچ 2002ءمیں ہونے والے وہ مذہبی فسادات خاص توجہ کا موضوع بنے ہیں جن میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً ایک ہزار اور غیر سرکاری ذرائع کی تحقیق کی رو سے دو ہزار سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع اس بات پر متفق ہیں کہ مرنے والوں میں بڑی تعداد مسلمانوں کی تھی۔ ان ہلاکتوں کے علاوہ عصمت دری کے بھی سینکڑوں واقعات پیش آئے اور املاک کو جلانے اور نقصان پہنچانے کی بھی بیسیوں وارداتیں ہوئیں۔
گجرات میں جب یہ فسادات ہوئے اس وقت نریندر مودی وہاں وزیراعلیٰ تھے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مختلف ذرائع مودی پر یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ فسادات کے دوران ا نھوں نے اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ہندو جتھوں کو مسلمانوں اور ان کی املاک کے بارے میں معلومات فراہم کیں اور پولیس اور دیگر سرکاری اداروں کو دنگا فساد کرنے والے کے خلاف کسی بھی کارروائی سے روک دیا۔ اب بی بی سی کی مذکورہ دستاویزی فلم میں یہ بتایا گیا ہے کہ 2002ءہی میں برطانیہ نے گجرات فسادات کے بارے میں ایک خفیہ تفتیش کی تھی جس سے پتا چلتا ہے کہ نریندر مودی ان فسادات کے لیے براہِ راست ذمہ دار ہیں کیونکہ انھوںنے دنگا فساد کرنے والوں کو آزادی دی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے مسلمانوں کو ہر طرح کا نقصان پہنچایا۔ بی بی سی نے اس خفیہ تفتیش کی غیر مطبوعہ رپورٹ برطانوی دفترِ خارجہ سے حاصل کی اور اس دستاویزی فلم میں اس کے حوالے دیے۔
بی بی سی کی دستاویزی فلم میں مذکورہ رپورٹ کا حوالہ دے کر جو کچھ کہا گیا ہے اس کی تصدیق سیاسی ذرائع سے بھی یوں ہوگئی کہ 2001ءسے 2006ءتک برطانیہ کے وزیر خارجہ رہنے والے جیک سٹرا (Jack Straw) نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس بات کے صحیح ہونے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ایک ٹیم نے گجرات جا کر ثبوت اور شواہد اکٹھے کر کے جو جامع رپورٹ تیار کی تھی وہ چشم کشا تھی۔ جیک سٹرا کے مطابق، اس رپورٹ سے پتا چلا کہ وزیراعلیٰ مودی نے نہ صرف پولیس کو قابو میں رکھنے بلکہ ہندو انتہا پسندوں کو آزادانہ طور پر کارروائیاں کرنے کے لیے حوصلہ افزائی دینے میں فعال کردار ادا کیا۔ سابق برطانوی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ یہ قابلِ مذمت سیاسی مداخلت کی ایک مثال تھی کہ پولیس کو لوگوں کی حفاظت کے ان کے بنیادی کام سے روک دیا گیا۔
یہ صرف ایک دستاویزی فلم ہی نہیں بلکہ نریندر مودی کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے جس میں صراحت سے ان کے جرائم کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ بی بی سی نے اس دستاویزی فلم میں صرف ایک واقعے سے پردہ اٹھایا ہے، اب اگر کوئی ادارہ 2014ءمیں مودی کے بھارت کے وزیراعظم بننے سے لے کر اب تک کے واقعات کا جائزہ لے تو پتا چلے گا کہ مودی نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی انتہا پسند سوچ کو آگے بڑھاتے ہوئے بھارت میں بسنے والی بالعموم تمام اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے تخریب کاری کے واقعات میں ملوث شدت پسند عناصر کی حوصلہ افزائی میں کس کس طریقے سے کیا کیا کردار ادا کیا۔ یقینا اقوامِ متحدہ سمیت تمام اہم عالمی اور بین الاقوامی اداروں کے پاس ایسے بہت سے واقعات سے متعلق کئی چشم کشا خفیہ رپورٹیں موجود ہوں گی لیکن ان میں کوئی بھی ادارہ اس حوالے سے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کرنا چاہے گا کیونکہ سوا ارب سے زائد آبادی کا ملک صرف ایک جغرافیائی اکائی ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑی منڈی بھی ہے!