مسئلہ کشمیر پر وزیراعظم کی امارات سے مداخلت کی اپیل
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات کے ایک ٹی وی نیوز چینل ”العربیہ “کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت سے مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل پر بات چیت کیلئے تیار ہیں۔بھارتی قیادت ہمارے ساتھ مل بیٹھ کر تمام دیرینہ تنازعات حل کرے تاکہ دونوں ممالک ہتھیاروں کی دوڑ کی بجائے اپنے وسائل غربت اور بے روزگاری کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ معیاری تعلیم اور صحت کی سہولیات پر خرچ کر سکیں، تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ بھارت 5 اگست 2019ءکا یکطرفہ غیر قانونی اقدام واپس لے۔کیونکہ بھارت کے ساتھ مذاکرات 5 اگست 2019 ءکے غیر قانونی اقدام کی منسوخی کے بغیرکسی طور ممکن نہیں۔
وزیراعظم نے بجاطورپر کہا کہ بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے، گو کہ ہم اپنی پسند سے ہمسائے نہیں بنے ، اب یہ ہم پر ہے کہ ہمیں امن و خوشحالی سے رہنا چاہئے، پاکستان نے ماضی سے سبق سیکھا ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں، ان جنگوں کے نتائج مزید غربت، بے روزگاری اور لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں ابتری کے طور پر سامنے آئے، میرا بھارت کی قیادت اور وزیراعظم مودی کو یہ پیغام ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ایک میزپر مل بیٹھیں اور تمام حل طلب مسائل کے حل کیلئے بات چیت کاسنجیدہ آغازکریں، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، یہ بند ہونی چاہئیں اور دنیا کو یہ پیغام جانا چاہئے کہ بھارت بات چیت پر تیار ہے۔ہم مکمل طور پر بات چیت کیلئے تیار ہیں، تاہم کشمیریوں کو ملنے والے حقوق یکطرفہ طور پر 5 اگست 2019ءکے اقدام سے ختم کر دیئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ میرا بھارتی قیادت کو یہ پیغام ہے کہ تنازعات ختم کرکے ہم اپنے وسائل کو ہتھیاروں کی دوڑ کی بجائے غربت، بے روزگاری کے خاتمہ، صحت اور تعلیم کی مثالی سہولیات کیلئے استعمال میں لا سکتے ہیں، دونوں ممالک جوہری طاقتیں ہیں،میں نے محمد بن زید سے یہ استدعا کی کہ وہ اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں، ہم خلوص دل کے ساتھ بھارت کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں، بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے ،وہ سب کے سامنے ہے۔
پاکستان اور بھارت کو اپنے دوطرفہ مسائل باالخصوص جموں و کشمیر کا بنیادی مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہیے، وزیر اعظم پاکستان نے بارہا ریکارڈ پر کہا ہے کہ جب تک بھارت 5 اگست 2019 ءکے اپنے غیر قانونی اقدام کو واپس نہیں لے لیتا بھارت کے ساتھ مذاکرات ممکن نہیں۔ وزیر اعظم آفس کی طرف سے منگل کو جاری وضاحتی بیان کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور جموں و کشمیر کے عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے۔
محمدشہبازشریف نے کہا کہ اس دنیا کی بقاءاور بقائے باہمی کا دارومدار امن پر ہے، دنیا میں اشیائے خور و نوش کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں جو تصّور سے بھی زیادہ ہیں، دنیا کو ہتھیاروں کی دوڑ سے نکلنا چاہئے، چین اور امریکہ کے درمیان پاکستان ایک پل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو بدترین معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے ،ہم ان چیلنجوں کا مقابلہ کریں گے، محنت اور قربانی سے ان چیلنجوں پر قابو پائیں گے، ہمارے دوست ممالک ہماری مدد کر رہے ہیں، جرمنی نے جاپان کو مکمل طور پر تباہ کیا تھا لیکن جاپان اپنی محنت سے آج دنیا میں نمایاں مقام حاصل کر چکا ہے، پاکستان کے بھائیوں اور بہنوں کیلئے یہ پیغام ہے کہ جس طرح خلیجی ممالک نے ریت کو سونے میں بدلا، سعودی عرب اس وقت دنیا میں تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ممالک میں شامل ہے، ہمارے لئے ضروری ہے کہ محمد بن سلمان اور محمد بن زید کی قیادت میں جس طرح محنت اور لگن سے کام کیا جا رہا ہے ،اسی طرح ہم بھی اس سے سبق حاصل کریں۔
متحدہ عرب امارات اور بھارت کے مابین خصوصی تعلقات ہیں، جن کے پیش نظر وزیراعظم شہبازشریف نے امارات کے سربراہ سے بھارت کے ساتھ مذاکرات شروع کروانے کی اپیل کی ہے ۔اس وقت متحدہ عرب امارات اس پوزیشن میں ہے کہ وہ بھارت پر دباﺅ ڈالے اور اسے قائل کرے کہ کشمیر سمیت پاکستان کے تمام حل طلب مسائل پر بات چیت شروع کی جائے تاکہ دونوں ممالک اپنے قومی وسائل جنگی تیاریوں پر خرچ کرنے کی بجائے انہیں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے وقف کرسکیں۔ بھارت کیساتھ مذاکرات تبھی ممکن ہیں جب وہ 5اگست2019کے غیرقانونی ،غیرآئینی اقدام کو واپس لے۔ کیونکہ اس وقت تو5اگست کے سانحے کی وجہ سے دونوں ممالک کی تجارت بھی بند پڑی ہے ۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ بھارت کس خلوص نیت سے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھتا ہے ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی ایک طویل تاریخ ہے ۔ کمپوزٹ مذاکرات چلتے رہے، ٹوٹتے رہے،امریکی صدر بل کلنٹن نے کارگل کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر کروائی تو انہوں نے اس امر کا اقرار کیا کہ وہ ذاتی حیثیت سے کشمیرکا مسئلہ حل کروائیں گے۔مگر صد حیف ! بھارت نے امریکی صدربل کلنٹن کی ایک نہ سنی،حالیہ برسوں میں بھارت نے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کی اور ایک بڑے تنازع کی شکل اختیار کرلی تو سلامتی کونسل نے اپنے خصوصی اجلاس میں اس امر پر زور دیا کہ برصغیر میں قیام ِ امن کیلئے مسئلہ کشمیر حل کروایا جائے اور اس کیلئے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو مدنظر رکھا جائے۔
عالمی انسانی حقوق کی متعدد تنظیمیں بھی بھارت پر زور ڈال رہی ہیں کہ وہ کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ بند کرے۔ مگر بھارت کی طرف سے میں نہ مانوں پر اصرار ہے ۔ کارگل کی جنگ لڑنے والے جنرل مشرف نے بھی آگرہ جاکرامن مذاکرات کرنے کی کوشش کی ، جنہیں بھارتی وفد کے سربراہ ایل کے ایڈوانی نے ناکام بنادیا۔پاک بھارت مذاکرات کیلئے پاکستان کی تمام کوششوں کے باوجود یہ بیل منڈھے نہ چڑھی۔ بھارت کی کہہ مکرنیوں نے برصغیر کے امن کو تہہ وبالا کرکے رکھ دیا ہے اور قیام امن کے تمام خواب ادھورے ثابت ہوئے ہیں۔ بہرحال اب وزیراعظم پاکستان نے متحدہ عرب امارات کے سربراہ محمد بن زید سے خصوصی اپیل کی ہے کہ وہ اس ضمن میں مداخلت کریں اور اپنا خصوصی کردار اداکرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کا حل نکالیں۔ خدا کرے کہ ان کا مشن کامیاب ہو۔