• news

5سالہ تباہی  تجربات  سے 26ویں معیشت 47ویں  نمبر پر چلی گئی : وزیر خزانہ



اسلام آباد (نامہ نگار) وفاقی وزیر خزانہ ومحصولات سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم پاکستان کی تاریخ میں ایک تحفہ ہے، اگر آمریت کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنا ہے تو صرف جمہوریت نہیں بلکہ مالیاتی نظم وضبط کو بھی نافذ کرنا ہوگا۔ ملک کو آگے لیجانے کیلئے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے باچہ خان اور خان عبدالولی خان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ باچہ خان اور ان کا خاندان ایک نظریاتی جدوجہد کے تسلسل کا نام ہے، اس خاندان نے ہمیشہ نظریاتی جدوجہد کو جاری وساری رکھا ہے، خان عبدالولی خان ، اسفندیار ولی خان اور ایمل ولی خان اسی جدوجہد کی کڑیاں ہے۔ باچہ خان کا عدم تشدد کا نظریہ واضح اور قابل تعریف ہے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ دہشت گردی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہماری سکیورٹی فورسز نے اس ناسور کے خاتمہ کیلئے اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔  جس کمٹمنٹ کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہونا چاہئے تھا وہ نہ ہوسکا۔ انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کی لہر میں سیاسی کارکن اور لیڈر نشانہ بنے ہیں۔ بشیر بلور، محترمہ بے نظیر بھٹو، میاں افتخار حسین کے جواں سال بیٹے اور ہارون بلور سمیت ہم نے کئی سانحات دیکھے، آج بھی ملک کے شمالی علاقوں میں دہشت گردی کی لہر آرہی ہے، اس کا جنگی بنیادوں پر سدباب ہونا چاہئے۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ ضرب عضب کیلئے ہم نے کسی سے بھیک نہیں مانگی تھی، ہم نے اپنے وسائل سے یہ جنگ لڑی۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے گزشتہ دور اقتدار میں مالیاتی ڈسپلن کی سزا میں انہوں نے 5 سال جلا وطنی کی صورت میں کاٹی ہے۔ گزشتہ چار برس ملکی تاریخ میں بدترین مالیاتی ڈسپلن کا دور رہا ہے، اس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں، ہمارے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں کہ ہلائیں گے تو سارے کام سیدھے ہوجائیں گے۔ تاہم حکومت نے اقدامات کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اگر اقتصادی بحرانوں سے نمٹنا ہے تو بڑے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے اور بیرونی غلامی سے آزادی حاصل کرنا ہوگی، اندرونی معاملات منیج ہوسکتے ہیں مگر بیرونی عوامل سے قوم کو آزاد کرنا ہوگا، تمام سیاسی جماعتوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ پاکستان کو خود دار اور ترقی یافتہ ملک بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بحرانوں سے گزر رہے ہیں۔ گزشتہ پانچ سال میں مس منیجمنٹ سے مکمل تباہی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس تباہی کو نہ صرف قابو میں لائیں بلکہ ملک کو ترقی کی راہ پرگامزن کریں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ 2016 ء میں پاکستان کی معیشت 24 ویں بڑی معیشت تھی۔ پانچ سال کی تباہی اورکچھ تجربات نے پاکستان کو اس نہج پر لا کھڑا کیا کہ ہماری معیشت 47 ویں نمبر پر آگئی ہے، میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پاکستان اس وقت آئین اور ایٹمی طاقت کی بدولت قائم ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں۔ یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ پر اب پھر نظر ثانی ہونی چاہیے۔  18ویں ترمیم پر سب اکٹھے ہوئے اسے پاس کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ گوادر پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک)کا حصہ بنا تو بلوچستان کو حصہ ملا۔ خواتین اور اقلیتوں کے لیے مشترکہ کوششیں کیں۔ 18ویں ترمیم کا مسئلہ پہلے حل ہوتا تو پاکستان تقسیم نہ ہوتا۔ پی پی سینیٹر کا کہنا تھا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ آصف زرداری ان کی بندوق کے نشانے پر ہے۔ آج عمران خان کہتے ہیں وہ آصف زرداری کے نشانے پر ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ میں نے سابق وزیرِ اعظم کا بیان پڑھا تو کرسی سے گر پڑا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ ہم طالبان کو واپس لا کر فاٹا میں آباد کریں گے۔  سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ آپ کو ٹی ٹی پی کو آباد کرنے کی اجازت کس نے دی، ٹی ٹی پی نے کہا کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی کا حشر کریں گے، ٹی ٹی پی کو کہتا ہوں نہ تم سے پہلے ڈرے نہ اب ڈرتے ہیں۔ انہوں نے کہا  اٹھارہویں ترمیم کو ختم نہیں ہونے دیں گے، سیاست میں ٹیسٹ ٹیوب بے بی کو شامل کیا گیا، ولی خان کو غدار کہا گیا لیکن وہ اصولوں پر قائم رہے، پاکستان میں سیاست فیل نہیں ہوئی بلکہ سیاست کو فیل کیا گیا۔ سیاست میں ہائبرڈ نظام داخل کیا گیا، سیاسی جماعتیں ریاست کو کہہ رہی ہیں کہ آپ آ کر مدد کریں۔ خطاب میں سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ ایک طرف شفاف انتخابات دوسری جانب مدد کی بات کی جاتی ہے، پاکستان کو ترقی پسند سوچ سے سکیورٹی سٹیٹ کی جانب دھکیلا گیا، آئین کہتا ہے کہ 30 دن میں الیکشن کروائیں، جناب گورنر پنجاب! آپ کو آئین اجازت دیتا ہے کہ الیکشن کی تاریخ دیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے کہا کہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں کہ الیکشن کی تاریخ دے، اب لازم ہو چکا ہے کہ نیشنل ڈائیلاگ ہو، جس میں تمام تر سٹیک ہولڈر شامل ہوں۔ نیشنل ڈائیلاگ کا پہلا حصہ سیاسی جماعتوں کے درمیان میں ہونا چاہیے، آج پھر بات ہو رہی ہے کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کیا جائے، پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لائیں، صوبائی خود مختاری پر کسی حملے کو برداشت نہیں کر سکتے۔ رضا ربانی نے یہ بھی کہا کہ بغیر پارلیمان کی اجازت کے کون طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے۔
وزیرخزانہ

ای پیپر-دی نیشن