کیوں فیر سانوں شوگراں ہوئیاں؟
جب اجتماعی زندگی کسی بڑے مقصد سے خالی ہو جائے تو اس کے نتیجہ میں شاعر اور ادیب اپنی ذات کے اسیر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ جب کسی بڑے انسانی مسلک سے وابستگی نہ رہے تو آدمی اپنی ذات کو ہی کل کائنات سمجھنے لگتا ہے ۔ پہلی نظر میں مجھے نیلم احمد بشیر کی یہ نظم ذاتی دکھ کی آئینہ دار ہی دکھائی دی ۔ نظم یوں ہے :
تیرے بُلاں داتے مٹھا نہ چکھیا
فیر کیوں سانوں شوگراں ہوئیاں ؟
رجھ شربت دیدار وی نہ پیتا
ملن مٹھائیاں کدے سنگھوں وی نہ لنگیاں
کیوں فیر سانو ں شوگراں ہوئیاں ؟
کوڑے ویلے کٹے
تے پکھے بندے چلھے
مٹھیاں نیندراں دا لیا نہ سواد
کلے سی جاگے تے کلے سی سُتے
کیوں فیر سانو ں شوگراں ہوئیاں ؟
احمد بشیر کی بیٹی ، پروین عاطف کی بھانجی اور بشریٰ انصاری کی بہن ادبی دنیا میں اپنے تعارف کے لئے ان رشتوں کی محتاج نہیں۔ ”گلابوں والی گلی “سے ان کی ادبی دنیا کا سفر شروع ہوا۔ ”Intimacy “کے عنوان سے افسانہ لکھنے کے لئے ایک عرصہ پردیسی بن کر کاٹنا پڑتا ہے ۔ یہ تارکین وطن بیچارے روٹی روزی کی تلاش میں اپنے وطن سے دور مارے مارے پھرنے والے ۔۔۔
بس یہ نہیں کہ عرش بریں کے نہیں رہے
ٹوٹے ہوئے ستارے کہیں کے نہیں رہے
لیکن حیرت ہے کہ نیلم احمد بشیر کی ، نیلم احمد بشیر سے ملاقات کیسے ہو گئی ؟ وہ انہیں مل کہاں گئیں؟ سات سمندر پار اور سات آسمانوں کی خبر لانے والے اپنی خبر سے اکثر بے خبر پائے گئے ۔ علامہ اقبالؒ کی نظم خاصی طویل ہے ۔ وہ بات یوں ختم کرتے ہیں :
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے
شاعر لاہور نے بھی اپنی اوائل عمری میں اسی مضمون پر اک نظم کہی تھی ۔ یہ وہ دن تھے جب انہیں خود سے ملنے کا شوق فراواں تھا۔ پھر تو وہ اپنی شاعری کی طرح اپنی ذات سے بھی بے نیاز ہو گئے ۔
نظم پڑھےے اور سر دھنےے :
موسم کی طوفانی شب تھی
شور مچاتی
پیڑ گراتی
خاک اڑاتی
سرد ہوائیں کوچہ کوچہ گھوم رہی تھیں
لیکن میں حسب وعدہ
اپنے آپ کو گہری نیند سلا کر
قصبے کی ویران سڑک کے تنہا موڑ پر
خود سے ملنے باہر نکلا
سنا ہے کہ یہ شاعر لاہورموسم سرما کی سرد طویل راتوں کو اکثر داتا حضور اپنے وجود کو ڈھونڈنے جا نکلتے ہیں۔ عرفان ذات کا سفر خاصا کٹھن ہے ۔ یہ داتا کی اوٹ میں کھڑے ہو کر اللہ میاں سے کیا اپنائیت اور بے تکلفی سے گویا ہوتے ہیں :
میرے لاہور پر بھی اک نظر ہو
تیرا مکہ رہے آباد مولا
ہربندہ احسن تقویم سہی پھر بھی کچھ بندے کچھ خاص رنگ ،روپ، شباہت لے کر آتے ہیں۔ کرکٹر فضل محمود وجاہت کا دوسرا نام تھا۔ وہ بھی آخری عمر میں داتا دربار خود کو ڈھونڈتے پائے گئے ۔
الجھا ہوا پھرتا ہے لوگوں میں ایک شخص
سلجھا ہوا اسی میں کوئی دوسرا بھی ہے
یہ من تن میں الجھے سلجھے لوگ خود ہی جانتے ہیں کہ یہ کیا ہیں ؟ مُلا ، مولوی قصوری درویش کا جنازہ پڑھنے سے انکاری ہو گئے۔ درویش نے اک اور سچ ننگا کر دیا۔
بلھے شاہ اسیں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور
اک سوال ہے کہ کیا شوگراں صرف میٹھا کھانے سے ہوتی ہے ؟ اور اسی لئے ظفر اقبال کہہ رہا ہے :
جانِ ظفر درکار ہے اب تو
میٹھی بات اور پھیکی چائے
سوال کا جواب یوں ہے کہ شوگراں صرف میٹھا کھانے سے نہیں ہوتی ۔ اس مرض کے زیادہ اسباب خارجی ہیں۔ پھر شاعر ، ادیب اللہ کی حساس ترین مخلوق ان اسباب سے لا تعلق کیسے رہ سکتے ہیں ؟ جالب کو بیس روپے من آٹا اور اس پر بھی سناٹا کھا گیا۔ اب آٹا ڈیڑھ سو روپے میں ایک کلو ملتا ہے ۔ اللہ جانے نیک ، دیندار دکانداروں کا ناپ تول بھی درست ہے یا نہیں ؟ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ پاکستان کا زیر کاشت رقبہ عالمی زیر کاشت رقبے کا ساڑھے سات فیصد ہے ۔ پھر اتنی بے ہنگم آبادی کے باوجود ہماری آبادی دنیا کی آبادی کا صرف اڑھائی پرسنٹ ہے ۔ پھر بھی یہاں لوگ آٹا ڈھونڈنے گھر سے نکلتے ہیں اور موت لے کر واپس آتے ہیں۔صرف اک خبر اور۔ سیلاب زدگان کیلئے آئے ہوئے کمبلوں میں سے دو کمبل پی ٹی آئی کی اک سابق رکن اسمبلی نے آن لائن خریدے ہیں۔ بھٹو زندہ ہے اور سب کچھ دیکھ رہا ہے ۔ کیا اب کچھ پلے پڑا کہ نیلم احمد بشیر کو میٹھا نہ کھانے کے باوجود شوگراں کیوں ہوئیاں ؟