آئی ایم ایف کے مطالبات ، وقت دیں ، سب ما نیں گے : پاکستان
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قرضہ پروگرام کے تحت نویں جائزہ کے مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔ پہلے مرحلہ میں دو فروری تک تکنیکی بات چیت ہو گی جس میں مختلف سیکٹرز جن میں بجلی، گیس ان کی پرائسنگ اور لاگت، قرضوں اور ڈیٹ سروسنگ، ریونیو کی پوزیشن اور ہدف سمیت اعداد وشمار کا جائزہ لیا جائے گا۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے ان سیکٹرز کے بارے میں اپنے، اپنے تخمینہ جات پر بات چیت ہو گی، جس کے بعد پالیسی نوعیت کے مذاکرات میں ممکنہ اقدامات پر اتفاق رائے کیا جائے گا۔ گذشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی قیادت میں وفد نے آئی ایم ایف کے مشن چیف اور ان کے ساتھ آنے والے ارکان کے ساتھ ملاقات کی اور بات چیت شروع کی۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کو مؤثر طریقے سے بروقت مکمل کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط پوری کرنے کی یقین دہانی کرائی تاہم یہ کہا کہ تمام مطالبات پر عملدرآمد کے لئے مزید وقت کی ضرورت ہے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بجٹ میں اعلان کردہ فیصلوں کے مطابق بجٹ خسارہ 4.9 فیصد رکھنے کا وعدہ پورا کیا جائے۔ پرائمری خسارہ جی ڈی پی کا 0.2 فیصد رکھنے کا وعدہ پورا کرنے کا کہا ہے۔ ذرائع کے مطابق برآمدی شعبے کو 110 ارب روپے کا استثنا ختم اور ایف بی آر کی طرف سے 7470 روپے ٹیکس وصولیوں کا ہدف ہر حال میں پورا کیا جائے اور اس کے لئے اضافی اقدامات کئے جائیں۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ گردشی قرض میں خاطر خواہ کمی لائی جائے اور پیٹرولیم لیوی کی مد میں 855 ارب روپے وصولی کا ہدف پورا کیا جائے۔ آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے درمیان ملاقات میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز روئیز، وزیر مملکت برائے خزانہ اور محصولات ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا، وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ طارق باجوہ، وزیراعظم کے مشیر برائے ریونیو طارق محمود پاشا، گورنر سٹیٹ بنک آف پاکستان جمیل احمد، سیکرٹری خزانہ، چیئرمین ایف بی آر، آئی ایم ایف کے وفد کے ارکان اور فنانس ڈویژن کے سینئر افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں توسیعی فنڈ سہولت کے تحت نویں جائزے کو پورا کرنے کے لیے اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں اور اصلاحاتی ایجنڈے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے وفد کا خیرمقدم کیا اور آئی ایم ایف کے ساتھ دیرینہ دوستانہ تعلقات کا اظہار کیا۔ انہوں نے مشن کو مالیاتی و اقتصادی اصلاحات اور حکومت کی جانب سے مختلف شعبوں میں کیے جانے والے اقدامات بشمول مالیاتی فرق کو کم کرنے، شرح مبادلہ میں استحکام اور معیشت کی بہتری کے لیے توانائی کے شعبے میں کیے جانے والے اقدامات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پاور سیکٹر میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں اور گیس سیکٹر میں گردشی قرضے کے خطرے سے نمٹنے کے لیے طریقہ کار وضع کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے بات چیت جاری رکھنے پر آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر کا بھی شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ بطور وزیر خزانہ انہوں نے ماضی میں آئی ایم ایف پروگرام کو کامیابی سے مکمل کیا ہے اور حکومت موجودہ پروگرام کو مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے مشن کے لیے اپنی تمام تر حمایت کو مزید وسعت دی اور توسیعی فنڈ سہولت کے تحت 9ویں جائزہ کو مکمل کرنے کے لیے ایک معاہدے تک پہنچنے کے لیے مل کر کام کرنے کاعزم کیا۔ آئی ایم ایف کے مشن چیف نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ حکومت 9ویں جائزے کی تکمیل کے لیے آئی ایم ایف کی ضروریات کو پورا کرے گی اور امید ظاہر کی کہ پاکستان مختلف شعبوں میں اصلاحات پر اپنی پیش رفت کو جاری رکھے گا اور آئی ایم ایف پروگرام کو مؤثر طریقے سے بروقت مکمل کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف اور پاکستان مالیاتی اصلاحات پر مل کر کام کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے مشن کی آمد سے قبل جو اقدامات پہلے کئے ہیں ان میں روپے کی قدر کو کرایا گیا ہے، جو مالیاتی ادارے کا سب سے بڑا مطالبہ تھا، بجلی اور گیس کے نرخ پر نظر ثانی پر بھی آمادگی ظاہر کی جا چکی ہے، جبکہ بجٹ کے خسارہ کے ہدف کو قابو میں رکھنے اور ایف بی آر کے ریونیو ہدف کو پورا کرنے کے لئے پہلے ہی سے 200ارب روپے کی ٹیکسیشن کی تیاری بھی مکمل ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کو مشن کو قائل کرنا پڑے گا کہ اس سے زائد اقدامات کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ مذاکرات کی کامیاب تکمیل پر پاکستان کو 1.1ارب ڈالرملنے کا امکان ہے۔