ادھر فاقے‘ ادھر دھماکے
سانحہ پشاور نے ملک بھر کو دکھی بھی کر دیا اور خوفزدہ بھی کیونکہ جن لوگوں نے یہ سانحہ برپا کیا‘ چند ہی ہفتے پہلے ایک خط لکھ کر انہوں نے بتا دیا تھا کہ وہ اپنا کام شروع کرنے والے ہیں۔ پی ٹی آئی کوچھوڑ کر انہوں نے سب جماعتوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ سب کو ”سزا“ دیں گے۔ دینی جماعتوں میں سے کسی کا نام تو نہیں لیا تھا‘ لیکن کہا تھا کہ وہ بھی مخالفت نہ کریں ورنہ .... اس ورنہ سے یہ دینی جماعتیں خودبخود ان کی فہرست میں شامل ہو گئیں۔ ایک سال کے دوران پشاور میں یہ دوسری بڑی دہشت گردی ہوئی ہے۔ گزشتہ برس مارچ میں انہوں نے ایک امام بارگاہ کو نشانہ بنایا تھا اور60 سے زیادہ افرادشہید ہوئے تھے۔ یہ دوسرا بڑا حملہ پولیس لائنز کی مسجد میں ہوا۔ لگ بھگ 100 نمازی شہید اور ڈیڑھ سو زخمی ہوئے۔ ٹی ٹی پی نے پہلے اس کی ذمہ داری قبول کی پھر شدید عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے تردید کر دی۔ بالکل ایسا ہی سانحہ اے پی ایس میں بھی ہوا تھا۔ پہلے حملے کی ذمہ داری قبول کی پھر تردید کر دی اور بعد میں ثابت ہو گیا کہ یہ حملہ ٹی ٹی پی نے ہی کیا تھا۔ خود احسان اللہ احسان نے گرفتاری کے بعد اس کی تصدیق کی جو اس کا ترجمان تھا۔ بعدازاں وہ فرار ہو گیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ فرار ہوا نہیں‘ فرار کرایا گیا۔ اے پی ایس کا حملہ جب ہوا‘ صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ جب فرار ہوا تب بھی پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ پی ٹی آئی حکومت نے سو ٹی ٹی پی کارکن رہا بھی کئے۔ اس سے زیادہ خود جیل توڑ کر رہا ہو گئے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ جیل تڑوائی گئی۔ کوئی حتمی بات کیسے کہہ سکتا ہے۔ آج تک اس جیل توڑنے کی تحقیقات ہوئی ہی نہیں۔ پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے البتہ پہلے بھی اور بعد میں بھی پشاور میں ٹی ٹی پی کا دفتر کھولنے کی پیشکش کی۔ اگرچہ انہیں پیشکش کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس کے دفتر ویسے ہی قائم تھے۔ صرف قائم ہی نہیں تھے‘ برسر کار بھی تھے۔ وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت کے آ خری مہینوں میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا دور شروع ہوا۔ خدا جانے کیا طے ہوا کیا نہیں۔ شاید ”کوٹہ“ مقرر کرکے دیا گیا ہوگا کہ اتنا ”جہاد“ کرنا ہے اور اتنا نہیں اور یہ بھی کہ کہاں کہاں جہاد کرنا ہے۔ کہاں کہاں جہاد کرنے سے باز رہنا ہے۔ ٹی ٹی پی والے دہشت گردی کو جہاد کا نام دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی والے اسے کیا نام دیتے ہیں‘ کچھ واضح نہیں۔
پچھلے سال جو بڑی دہشت گردی ہوئی تھی‘ تعزیت کیلئے بھی لوگ پہنچے تھے۔ بس عمران خان نہیں گئے تھے۔ وجہ مصروفیت بتائی گئی تھی۔ بلوچستان میں پی ٹی آئی کی ”جڑواں“ باپ کی حکومت تھی۔ وہاں دہشت گردی ہوئی۔ شہداءکی نعشیں سڑک پر رکھ کر لواحقین نے دھرنا دیدیا اور مطالبہ کیا کہ سب لوگ تعزیت کیلئے آگئے۔ وزیراعظم بھی تشریف لائیں‘ لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور نہیں گئے۔ اصرار بڑھا تو وزیراعظم نے کہا‘ پہلے لاشوں کی تدفین کرو پھر آﺅں گا۔ تدفین ہوئی تو گئے۔
تب یہ ”افواہ“ اڑی کہ کسی مرشد نے میتوں کے بلکہ میت والے گھر کے بھی قریب جانے سے سخت منع کیا ہے۔
سانحہ پشاور وزیراعظم شہبازشریف کل تعزیت اور عیادت کیلئے وہاں گئے۔ عمران کو بھی جانا چاہئے۔ ٹانگ کا مبینہ زخم آڑے نہیں آسکتا۔ اس لئے کہ جب یہ مبینہ زخم مبینہ طورپر زیادہ گہرا تھا‘ تب وہ 25 نومبر کو راولپنڈی کے احتجاج میں شرکت اور خطاب کیلئے چلے گئے تھے۔ اب تو ان کا مبینہ زخم ٹھیک ہو چکا ہے۔ دو چار روز پہلے ان کی بنا پلستر کے تصویر بھی آئی تھی اورکلپ بھی ۔ پشاور جانے میں کوئی طبی رکاوٹ نہیں ہے۔انہیں جانا چاہئے لیکن عمومی پیش گوئی ہے کہ وہ نہیں جائیں گے۔ مرشد کا حکم بدستور نافذالعمل ہے اور اس کے خلاف کہیں سے حکم امتناعی بھی آنے کا کوئی امکان بھی نہیں ہے۔
................
100 گھرانے اجڑ گئے۔ ڈیڑھ سو کے قریب تقریباً اجڑ گئے۔ یہ سب لوگ نماز پڑھ رہے تھے جب ٹی ٹی پی نے ”جہادی“ کارروائی کی۔ افریقہ میں ان کے ہمزاد داعش کے نام پر منظم ہیں۔ جہاں کیلئے ان کی پسندیدہ جیلیں بھی مساجد اور سکول ہیں۔
ملک بھر میں دکھ ہے اور پریشانی بھی۔ پچھلے چار برسوں میں بہت کچھ تبدیل ہوا۔ ہماری کاﺅنٹر ٹیررازم کی صلاحت بھی تبدیل ہوکر مثبت سے منفی ہو گئی۔ چار سال کیلئے دہشت گردی ختم ہو چکی تھی‘ لیکن پھر سے شروع ہوئی اور بڑھتی ہی گئی۔ خاص طور سے پختونخواہ میں جہاں 9 سال سے پی ٹی آئی حکومت میں تھی۔ حد ہو گئی۔ یہ تو بہت بڑا سانحہ ہوا‘ لیکن کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب وہاں ایک دو‘ تین‘ چار اور پانچ یا اس سے بھی کچھ زیادہ لوگ نہ مرے ہوں۔ جی ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں۔ ایک بھی دن خالی نہیں گزرا اور بعضے دنوں میں تو ایک سے زیادہ وارداتیں ہوئیں۔ اس کی ذمہ داری کس کے سر ہے؟ 9 سال سے حکومت کرنے والوں پر نہیں تو اور کس کے سر؟ وہی جو حکومت بھی کرتے رہے‘ ٹی ٹی پی کو دفتر بھی کھول کر دیتے رہے۔ سہولت کاری کا لفظ‘ چلیئے استعمال نہیں کرتے‘ لیکن مذاکرات بھی کرتے رہے اور یہی نہیں ”بھتے“ بھی دیتے رہے۔ براہ کرم‘ بھتے کو بھتہ ہی سمجھئے‘ چندہ دینے کا طریقہ یا چندے کا نام مت سمجھئے۔ اس دوران ٹی ٹی پی کو اس اسلحہ سے بھی اپنا حصہ مل گیا ہے جو امریکہ وہاں چھوڑ گیا تھا تھا۔
................
اب ہر طرف سے خطرہ ہے۔ ڈالر کی اڑان معیشت کے پر کترے چلی جا رہی ہے۔ زندگی ایک طرف دھماکوں‘ دوسری طرف فاقوں کے گھیرے میں آگئی ہے۔ دنیا پاکستان کے بارے میں جو باتیں کر رہی ہے‘ وہ اچھی نہیں۔ افغانستان میں جب طالبان حکومت پر آگئے‘ تبھی لکھا تھا کہ ان میں سارے نہ سہی‘ بہت سارے ایسے ہیں جو اپنی امارت کا دائرہ وسیع کرنے کی بات کھلم کھلا کرتے ہیں۔ ان کے آڈیو ویڈیو کلپ بھی آپ نے دیکھے ہونگے۔ ان کی نظریں دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر ہی نہیں‘ شمالی بلوچستان پر بھی گڑھی ہوئی ہیں۔ جو وہ سوچتے ہیں‘ ویسا نہیں ہونے والا‘ لیکن افغانستان میں ہمارے ”دینی بھائی“ جن کی فتح پر ہم نے جشن منایا تھا‘ ہمارے لئے بہت سے مسائل کھڑے کر رہے ہیں اور مزید کھڑے کریں گے اور ہم مسئلوں میں پہلے ہی اتنے گھرے ہوئے ہیں کہ اب کیا کریں؟ یہ سوچنے کی سکت بھی جاتی رہی ہے۔ اللہ خیر کرے۔